بنگلہ دیش میں پولیس نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو اپنی جماعت کے دفتر میں ہی روک دیا گیا ہے، اور پولیس کی بھاری نفری نے اُن کے پارٹی دفتر کو گھیرے میں لے لیا۔
خالدہ ضیا نے ملک کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر مظاہروں کا اعلان کر رکھا تھا۔
’بی این پی‘ اور اس کی اتحادی جماعتوں نے 5 جنوری 2014ء میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ خالدہ ضیا اور اُن کی حامی جماعتیں ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اپنے اس موقف پر قائم رہیں کہ نئے انتخابات اسی صورت میں کروائے جا سکتے ہیں اگر ان کے مخالفین تشدد کا راستہ ترک کر دیں۔
’بی این پی‘ نے حسینہ واجد کی طرف سے عبوری حکومت کے زیر نگرانی انتخابات کے انعقاد کی روایت کو ختم کرنے کی سخت مذمت کی تھی۔ حسینہ واجد کی جماعت ’عوامی لیگ‘ کا موقف تھا کہ نگران حکومت کا نظام ناکام ثابت ہوا ہے۔
خالدہ ضیا کے حامی کارکنوں نے اپنی جماعت کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا اور شرکاء پولیس سے دفتر کا گھیراؤ کرنے کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔
’بی این پی‘ کے ایک کارکن شیریں زاہان نے کہا "ہم اپنی پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کو گزشتہ رات سے نظر بند کیے جانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔''
وزیراعظم حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے گزشتہ عام انتخابات میں دو تہائی سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔
انتخابات پر بین الاقومی مبصرین کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار بھی کیا جب کہ ’بی این پی‘ کے بائیکاٹ کے باعث نصف سے بھی کم نشستوں پر مقابلہ ہوا۔
حسینہ واجد اور خالدہ ضیا ایک دوسرے کی سخت سیاسی حریف ہیں اور گزشتہ 22 سال میں صرف دو سال کے علاوہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر یہ ہی دونوں مختلف اوقات میں فائز رہیں۔