بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں موٹرسائیکل سوار نوجوانوں نے چاقو کے وار سے پولیس چوکی پر تعینات ایک اہلکار کو ہلاک جب کہ دوسرے کو زخمی کر دیا۔
بنگلہ دیش میں ایک گروپ نے جو اپنی شناخت دولت اسلامیہ کے نام سے کرتا ہے، ایک ویب سائیٹ پر بیان پوسٹ کیا ہے، جس میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
یہ بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں سے تازہ ترین واقعہ ہے، جس کی ذمہ داری حالیہ ماہ میں داعش نے قبول کی ہے۔
ماہر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غریب اقوام دولت اسلامیہ کے انتہاء پسندوں کی سرگرمیوں کے لئے تر نوالہ ہیں۔ ڈھاکہ میں خطرہ یہ ہے کہ داعش اس ملک کو افرادی قوت کی بھرتیوں کا مرکز نہ بنادے، جہاں سے وہ پورے خطے میں نیٹ ورک قائم کرلیں گے۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں حکام نے ابتدا میں داعش کے ملوث ہونے کے امکانات کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن، اب وہ سمجھنے لگے ہیں کہ انتہاء پسند گروپ حقیقی خطرہ ہیں۔
وزیر اطلاعات حسن الحق انو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’ہم اس بات کی جانچ کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں دولت اسلامیہ کا وجود ہے۔ حالیہ واقعات کا مقصد معاشرے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے‘۔
داعش نے واضح کیا تھا کہ ان کے اراکین دو اہم شخصیات کے قتل میں ملوث ہیں جن میں سے ایک 50 سالہ اطالوی امدادی کارکن، قیصر تاویلا تھے، جھنیں 28 ستمبر کو ڈھاکہ میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا، اور دوسرے 55 سالہ جاپانی ماہر زراعت کونیو ہوشی تھے، جنھیں 3 اکتوبر کو شمالی بنگلہ دیش میں قتل کیا گیا۔
بنگلہ دیش میں داعش کی دیگر کارروائیوں میں گزشتہ ہفتے دارلحکومت میں نکلنے والے شیعہ جلوس پر خودکش حملہ شامل ہے جس میں ایک بچہ اور ایک شخص ہلاک ہوئے اور دیگر درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس دعوے کے تصدیق دہشت گردی کا مطالعہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے سے ہوئی۔
اس سے پہلے سیکولر بلاگرز اور پبلیشرز کو نشانہ بنانے کی جو لہر 2013 سے بنگلہ دیش میں اٹھی ہے، داعش کا تشدد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔
ڈھاکہ میں پیش آنے والے مختلف تازہ ترین واقعات میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایک سیکولر بلاگر ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے۔۔ برصغیر میں القائدہ نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم عقائد کا مذاق اڑانے پر انھوں نے انھیں نشانہ بنایا۔
بنگلہ دیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ تشدد کی بیشتر وارداتوں میں مقامی دہشت گرد اور اپوزیشن ملوث ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے مقامی اور بین لااقوامی عناصر کی جانب سے حکومت کے خلاف سازش کا حصہ ہے۔
القائدہ اور طالبان تشدد میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن، وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال نے حال ہی میں رپورٹرز سے کہا کہ ان واقعات کا داعش کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
تاہم، سیکورٹی کے ماہر اشفاق الہٰی چوہدری نے وائس آف امریکہ بنگلہ سروس کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے انتہاء جنگجو اور بنگلہ دیش میں پرتشدد مقامی گروپ نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں اور اہمیت حاصل کرنے کے لئے چند گروپ داعش کا نام استعمال کررہے ہیں۔
دولت اسلامیہ کی مشتبہ سرگرمی ڈھاکہ سے کہیں آگے بہت دور لندن تک پہنچ چکی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ نے برطانیہ میں انٹرویو کے دوران معلوم کیا کہ دولت اسلامیہ تیزی سے بنگلہ دیشیوں کو عراق اور شام میں لڑنے کے لئے بھرتی کررہی ہے۔
لندن کے ایک ضلع ٹاور ہملیٹ کے کئی بنگلہ دیشی برطانوی نوجوان اور خواتین داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ شامل ہونے کے لئے برطانیہ چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک کالج کے 19 سالہ طالب علم سعادت راشد کا کہنا ہے کہ ’داعش کا پروپگنڈا بہت مؤثر ہے جس میں سماجی میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے‘۔
کم از کم سات بنگلہ دیشی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دولت اسلامیہ اور دیگر باغیوں میں شمولیت کے لئے برطانیہ میں اپنا گھربار چھوڑ چکے ہیں۔ سابق پڑوسیوں کے مطابق اور نئی خبر ہے کہ کم از کم 8 دیگر افراد جن میں 5 مرد اور 3نوجوان لڑکیاں شامل ہیں، جنگ میں شمولیت کے لئے برطانیہ سے روانہ ہوچکی ہیں۔
لندن میں وزارت خارجہ کے مطابق 500 کے قریب برطانوی مسلمان انتہاء پسندوں کے ساتھ شامل ہونے کے لئے شام روانہ ہوچکے ہیں جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ روشن آرا علی جو کہ بنگلہ دیشی برطانوی ہیں کہتی ہیں کہ ’نوجوان کہیں بھی ہوں یورپ میں، امریکہ میں، پاکستان یا بنگلہ دیش میں وہ آسانی سے ان کا نشانہ بن سکتے ہیں‘۔
سماجی میڈیا دولت اسلامیہ میں بھرتی کے لئے نہایت طاقت ور آلہ ہے، اسکولوں اور معاشرے کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ شام جانے کے خواہش مند بچوں کے والدین نے وائس آف امریکہ کو انڑویو دینے سے انکار کیا۔