بنگلہ دیش میں اتوار کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن ہفتہ کو حزب مخالف نے 48 گھنٹوں کے لیے عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ’’بی این پی‘‘ نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے جس سے انتخابات کی قانونی حیثیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں اس بدامنی اور تشدد کے باعث 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بی این پی کی انتخابات میں عدم شمولیت کی وجہ سے حکمران عوامی لیگ کی فتح یقینی ہے۔
بی این پی اور اس کی بعض حلیف جماعتیں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے مستعفی ہو کر انتخابات ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ کی زیر نگرانی کروانے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں جسے وزیراعظم پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں۔
بی این پی کی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا نے اتوار کو ہونے والے انتخابات کو ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیتے ہوئے حکومت پر انھیں گھر پر نظر بند کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
سیاسی انتشار کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں ہزاروں فوجی بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور دولت مشترکہ نے انتخابات کی نگرانی کے لیے اپنے مبصرین بنگلہ دیش بھیجنے سے انکار کیا ہے۔
حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ’’بی این پی‘‘ نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے جس سے انتخابات کی قانونی حیثیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں اس بدامنی اور تشدد کے باعث 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بی این پی کی انتخابات میں عدم شمولیت کی وجہ سے حکمران عوامی لیگ کی فتح یقینی ہے۔
بی این پی اور اس کی بعض حلیف جماعتیں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے مستعفی ہو کر انتخابات ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ کی زیر نگرانی کروانے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں جسے وزیراعظم پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں۔
بی این پی کی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا نے اتوار کو ہونے والے انتخابات کو ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیتے ہوئے حکومت پر انھیں گھر پر نظر بند کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
سیاسی انتشار کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں ہزاروں فوجی بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور دولت مشترکہ نے انتخابات کی نگرانی کے لیے اپنے مبصرین بنگلہ دیش بھیجنے سے انکار کیا ہے۔