سائنس دانوں کا کہناہے کہ چمپنزی وہ جانور ہے جس کا انسان سے سب سے قریبی رشتہ ہے اور یہ کہ اس کے ڈی این کا 98 فی صد انسانی ڈی این اے جیسا ہے۔اس انتہائی ذہین جانور کی بہت سی جسمانی اور کردار کی خصوصیات بھی انسان سے ملتی جلتی ہیں اور اسی مشابہت کی وجہ سے طبی ماہرین کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ ان دنوں چمپنزیوں کے حقوق اور طبی اخلاقیات پرامریکہ بھر میں ایک بھرپور بحث شروع ہوچکی ہے۔
امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ابھی تک چمپنزیوں پر وفاقی فنڈز کی مدد سے طبی تجربات کی اجازت ہے۔ جن میں ایسی نئی ویکسینوں اور ادویات کی تیاری اور تجربات شامل ہیں، جن سے امکانی طور پر مہلک انسانی بیماریوں کی روک تھام یا علاج میں مدد مل سکے۔
چمپنزیوں پر تجربات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان طبی تجربات سے دنیا بھر میں لاکھوں زندگیاں بچانے میں مدد ملی ہے۔ جب کہ جانوروں کی بہبود سے متعلق سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ چمپنزیوں پر تکلیف دہ اور اکثراوقات جان لیوا تجربات کیا جانا ایک ظالمانہ اور غیر انسانی فعل ہے۔
ڈاکٹر ہوپ فردوسیان(Hope Ferdowsian) ایک غیر سرکاری طبی تحقیقی ادارے پی سی آر ایم میں ریسرچ پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایچ آئی وی اور ہپاٹائٹس کی تحقیق میں استعمال کیے جانے والے چمپزیوں پر تجربات سے قبل انہیں بے ہوشی کی دوا ایک بندوق کی مدد سے فائر کرکے دی جاتی ہے جو ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ چمپنزیوں کا لیبارٹریوں میں استعمال طبی تحقیق کا ایک غیر مؤثر طریقہ ہے۔
ادارے میں عوامی امور کی ڈائریکٹر ،امریکی کانگریس کے رکن ڈینس کیوسینچ کی اہلیہ ،الزبتھ کیوسینچ کہتی ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس کے سلسلے میں چمپنزیوں پر 80 مختلف حفاظتی ادویات کارگر رہی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی انسانوں کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکی۔
امریکہ میں ہیومن سوسائٹی آف یونائیٹڈ اسٹیٹس کی ایک حالیہ خفیہ تفتیش سے ظاہر ہوا ہے کہ لوئی زیانا کے ایک تحقیق مرکز میں چمپنزیوں کے ساتھ سخت برتاؤ اور تکلف دہ طبی تجربات کیے جارہے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس انتہائی اعلیٰ درجے کے ان سماجی جانوروں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں رکھا جارہاہے۔جن میں کچھ کئی عشروں سے وہاں بند ہیں۔
ڈاکٹر ہوپ فردوسیان کا کہنا ہے کہ چمپنزیوں کو اس قسم کے تکلیف دہ حالات میں نہیں رکھا جانا چاہیے اور یہ کہ انہیں طبی تحقیق میں استعمال کرنے کی بجائے متبادل طریقے موجود ہیں۔ مثلاً ایچ آئی وی پر تحقیق کے دوران میں ہم نے بہت سی معلومات انسانی وباؤں پر تحقیق کے ذریعے حاصل کیں ہیں۔ اسی طرح ہم نے اس وائرس کے بارے میں بہت سی معلومات شماریاتی اور کمپیوٹرماڈلنگ کی مدد سے حاصل کی ہیں۔
کیوسینچ اور ڈاکٹر فردوسیان دونوں حال ہی میں کانگریس کی جانب سے متعارف کرائے اس نئے قانون کے حق میں، جو بالآخر چمپنزیوں پر تکلیف دہ تجربات پر پابندی عائد کردے گا، مہم چلانے کے لیے کیپٹل ہل گئے تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ چمپنزیوں کے تحفظ کے اس ایکٹ کے تحت امریکی لیبارٹریوں میں چمپنزیوں پر ہر قسم کی ظالمانہ اور تکلیف دہ تحقیق پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اس قانون کے تحت وفاقی ملکیت کے چمپنزیوں کو رہا کردیا جائے گا جن کی تعداد امریکی لیبارٹریوں اور جنگلوں میں موجود چمپنزیوں کا تقریباً نصف ہے۔
تاہم یہ بل ہر ایک کو پسند نہیں آرہا۔ ٹیکساس میں قائم ایک یسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر جان وینڈی برگ کہتے ہیں کہ بائیو میڈیکل ریسرچ میں چمینزیوں کا استعمال ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی اور جانور موجود نہیں ہے جسے ہپاٹائٹس سی، بی یا ایچ آئی وی سے متاثر کیا جاسکے۔
ان کا کہنا ہے چمپنزیوں پر کی جانے والی اب تک کی تحقیق سے دنیا کی بیشتر آبادی کو فائدہ پہنچا ہے۔
جان وینڈی برگ اپنے تحقیقی مرکز کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے مرکز میں چمپنزیوں کو اس سے کہیں زیادہ بہتر دیکھ بھال فراہم کی جاتی ہے جتنی کہ دنیا میں بہت سے انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔ وہ سماجی گروپس میں رہتے ہیں ۔ ان کے لیے کمرے اور کھلی جگہیں موجود ہیں۔ انہیں سردیوں میں حرارت اور گرمیوں میں ایئر کنڈیشننگ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ہمارے چمپنزیوں کے لیے تو ٹیلی ویژن تک فراہم کیے گئے ہیں۔
چمپنزیوں سے متعلق ایک معروف ماہر جین گوڈال کا کہنا ہے کہ چمپنز یوں کو طبی ریسرچ کے لیے استعمال کرنا اخلاقی طورپر غلط اور ناقابل قبول ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مخلوق کو آرام دہ ماحول میں رکھنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی کہ طبی تحقیق میں استعمال ہونے والے چمپنزی تکالیف میں مبتلا ہوسکتے اور ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
گوڈال وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کئی عشرےتک چمپنزیوں کے ساتھ رہی ہیں اور ان پر تحقیق کی ہے۔اور اب وہ خطرے سے دوچار اس مخلوق کے تحفظ کی مہم چلارہی ہیں۔
لیکن جان وینڈی برگ کہتے ہیں کہ اگر چمپنزیوں پر ہونے والی طبی تحقیق کو مرحلہ وار ختم کرنے کا مجوزہ بل منظور ہوجاتا ہے تو ان کی طرح کے سائنس دانوں کو اپنی تحقیق ختم کرنی پڑے گی اور اگرا یسا ہوا تو یہ انسانیت کے لیے ایک بڑا المیہ ہوگا۔