پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس معاہدے کی توثیق کرے۔
اس خواہش کا اظہار بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو نے پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ملاقات کے بعد پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
مارک برسٹو نے کہا کہ بیرک گولڈ اور پاکستانی شراکت اداروں کے درمیان ریکوڈک منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے رواں سال کے اوائل میں ایک فریم ورک معاہدے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد دیگر قانونی معاملات طے کیے جا رہے ہیں۔
مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ بیر ک گولڈ اور حکومت پاکستان اور دیگر پاکستانی شراکت داروں کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کی پائیدار ی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو قانونی تٖحفظ حاصل ہو اور پاکستان کی سپریم کورٹ بھی اس کا جائزہ لے۔
یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں بیرک گولڈ نے پاکستان کے ساتھ جاری تنازع ختم کرتے ہوئے ایک معاہدے کے تحت بلوچستان میں واقع تانبے اور سونے کی کان کنی کے ریکوڈک منصوبے کے لیے دوبارہ سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
عدالت کے باہر ہونے والےا س معاہدے کے تحت عالمی بینک کی ثالثی عدالت کی طرف سے پاکستان کے خلاف عائد ہونے والے 11 ارب ڈالرکا جرمانہ ختم کر دیا گیا تھا۔ بیرک گولڈ نے اپنے دیگر شراکت دوراں کے ساتھ مل کر ریکوڈک منصوبے میں دوبارہ بھاری سرمایہ کاری کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا جائزہ لینا اور توثیق کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔
'سپریم کورٹ شاید اس معاملے میں مداخلت نہ کرے'
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ پارلیمان کی کمیٹی برائے خزانہ ریکوڈک منصوبے کے معاہدے کا جائزہ لے سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ کا اس عمل میں شامل ہونا شاید ممکن نہ ہو۔
حفیط پاشا کہتے ہیں کہ پاکستان کا سرمایہ کاری بورڈ سرمایہ کاری کے معاہدوں کی نظر ثانی اعلیٰ حکومتی سطح پر کر وانے کا مجاز ہے لیکن ایسے معاہدوں کی پارلیمان کے ذریعے قانونی توثیق کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ماہر قانون اور وکیل اسلم خاکی کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کی وجہ سے بیرک گولڈ اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک تنازع پیدا ہو تھا اس لیے بیرک گولڈ نئے معاہدے کے لیے قانونی اورپارلیمانی تحفظ کی خواہاں ہے کہ دوبارہ کوئی ایسا تنازع پیدا نہ ہو۔
اسلم خاکی کہتے ہیں یہ معاملہ شاید سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے ۔ ان کے بقول ایسے معاہدوں پر نطر ثانی کرنا اور ان کی توثیق کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔
اُن کے بقول اگرچہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی معاہدے پر تنازع پیدا ہونے سے پہلے پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس کا جائزہ لیا ہو۔ لیکن اسلم خاکی کہتے ہیں کہ حکومت ایک ر یفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجو ع کر کے بیرک گولڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قانونی رائے حاصل کر سکتی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اوربیرک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ریکوڈک کے تانبے اور سونے کے ذخائر کی کان کنی اعلیٰ ترین عالمی معیار کے مطابق کی جائے گی جس سے پاکستان اور اس کے عوام کو طویل مدتی فائدہ حاصل ہو گا۔
مارک برسٹو نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت ، بلوچستان کی حکومت اور دیگر پاکستانی شراکت داروں کے درمیان قانونی معاملات طے ہونے کے بعد بیر ک گولڈ کمپنی دو مرحلوں میں ریکوڈک میں کان کنی کے لیے سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ بعدازاں تین ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ریکو ڈک کا شمار دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ مارچ 2022 میں پاکستان کی وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت اور بیرک کمپنی کے مابین اصولی طور پر ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ 2011سے التوا کے شکار اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا جائے گا۔
اس نئے اصولی معا ہدے کے مطابق شراکت داری میں 50فی صد حصہ بیرک گولڈ کا ہو گا اور وہی اس منصوبے کو چلائے گی جب کہ حکومت بلوچستان کا حصہ 25 فی صد جبکہ باقی 25فی صد حقوق حکومتِ پاکستان کی سرکاری کمپنیوں کے پاس ہوں گے۔
مارک برسٹو نے کہا کہ اس وقت حکومت پاکستان اور بیرک کی ٹیمیں مل کر بنیادی فریم ورک کے مطابق حتمی معاہدوں پر کام کر رہی ہیں اور ان معاملات کو طے کرنے کے لیے ان کے بقول دو سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس منصوبے پر کام 2027 یا 2028 میں شروع ہو سکتا ہے۔
یاد ر ہے کہ 2011 میں ریکوڈک کا منصوبہ التوا اکا شکار ہو گیا اور بعدازاں پاکستان کے سپریم کورٹ نے 1990 کی دہائی میں بلوچستان حکومت اور بیرک گولڈ اور چلی کی کان کنی کی ایک کمپنی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو کالعدم قر ار دے دیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت کینیڈا اور چلی کی کمپنوں کے کنسورشیم ٹیتھیان کمپنی کو منافع کا 75 فی صد جب کہ بلوچستان کو 25 فی صد حصہ ملنا تھا ۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف متاثر کمپنوں نے عالمی بینک کے ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا جس نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا جس کے تحت پاکستان کو اربوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
لیکن رواں سال مارچ میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت بیرک گولڈ کمپنی نے بلوچستان میں ریکوڈک سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبے میں پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں اور سرکاری اداروں کے ساتھ 50 فیصد شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا جب کہ چلی کی فرم نے 90 کروڑ ڈالر کے عوض معاہدے سے پہلے ہی علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔