رسائی کے لنکس

بتا تیری رضا کیا ہے؟


کائنات میں بہت سی چیزوں کا وجود اپنے آپ کو اس شکل میں ظاہر ہی نہیں کرتا کہ ہمارے پانچ انسانی احساسات اس کو محسوس کرسکیں۔

آج میں مذہب پر بات کروں گا۔ اس بلاگ کو لکھنے سے قبل مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ تم مذہب پر منہ نہ کھولنا کیونکہ تم تہذیب کے دائرے سے باہر ہو۔ تم ایک جنگلی آدمی ہو جو چیتے کی کھال پہن کر درخت سے لٹک رہا ہے۔ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے لوگ شلوار اور شیروانی پہنتے ہیں، پھر عطر لگاتے ہیں اور بات چیت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جو تہذیب طے کرتی ہے، وغیرہ۔

مگر مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تہذیب اپنے علاقے میں لوگوں کے صحیح اور غلط کے تصورات کو اس انداز میں تشکیل دیتی ہے کہ وہ مذہب کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ ان کا مذہب ان کی علاقائی تہذیب کا پابند نہ ہو جائے۔ جب اپنے مذہب کو یہ علاقائی ثقافت کے سامنے سجدہ کروا لیتے ہیں تو پھر اسے تہذیب کی محفلوں میں چار چاند لگانے کے لیے بھی پیش کرنے لگتے ہیں۔

میں کوئی عالم دین نہیں ہوں اور بہت ممکن ہے کہ مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں پر میری جہالت اسی بلاگ میں سامنے آجائے۔ مگر کیونکہ میں تہذیب کے دائرے سے باہر ہوں اس لیے ایک بات آپ خود دیکھیں گے۔ میرے روحانی تصورات اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے کسی تہذیب کے قدموں میں نہیں پڑے ہوئے۔

اب آئیے بات کرتے ہیں مذہب پر۔۔۔ تہزیب کے دائرے سے باہر نکل کر۔۔۔

دنیا کے تمام لوگ اچھا ہونا چاہتے ہیں۔ مگر اچھے ہونے کے لیے یہ صحیح اور غلط کا وہی معیار اپناتے ہیں جو ان کی علاقائی تہذیب ان کے سامنے رکھتی ہے۔ یعنی اچھے ہونے کی اس بنیادی کوشش میں اگر ایک شخص پاکستان میں پیدا ہوتا ہے تو وہ محب وطن پاکستانی ہوتا ہے اور اگر برطانیہ میں پیدا ہوتا ہے توہ محب وطن برطانوی۔ اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو نماز اور روزے کا پابند ہوتا ہے اور اگر عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو چرچ کا پابند۔ اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اور خاندان قابل احترام ہوتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔

دنیا کے تمام لوگ اچھا ہونے کا سفر اسی مقام سے شروع کرتے ہیں اور اگر تہذیب کا بس چلے تو وہ ان کو اس پہلی منزل میں ہی رکھے۔ اس سے آگے کبھی نہ بڑھنے دے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی زیادہ تر آبادی اپنے اچھے ہونے کی کوشش میں اس مقام سے آگے کبھی بھی نہیں بڑھ پاتی۔ یہ اچھا انسان بننے کی وہ کوشش ہے جسے ہم Cultural Conformism کہتے ہیں۔ ایسی قوموں سے مذہبی تعلیم لینا بہت خطرناک ہے جو Cultural Conformism کی سطح پر ہیں کیونکہ ان کے اللہ میاں بھی علاقای ثقافت کے پابند ہونگے۔

انسانی سوچ جب تھوڑی اور جوان ہوتی ہے تو وہ شک کرنا شروع کرتی ہے۔ یہ سوچتی ہے کہ کیا میرے دینی عقائد صحیح ہیں یا غلط، کیا کسی بھی ملک کی پابندی کر کے میں ان معیارات سے تو نہیں گر رہا جو سیاست سے زیادہ بلند ہیں اور کیا میرے والدین اور میرا خاندان واقعی اتنے اچھے ہیں جتنا کہ میں انہیں سمجھتا آیا ہوں؟ یہ شک ایک ایسا فطری عمل ہے جو دنیا کے تمام انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور کرتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی مذہبی، محب وطن اور روایت پسند کیوں نہ ہوں۔ مگر دنیا کی زیادہ تر آبادی اس شک کو تہذیب کے پتھر سے اس وقت کچل ڈالتی ہے جب یہ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اسے پلنے نہیں دیا جاتا۔

​دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس شک کو نہ صرف زندہ رکھتے ہیں بلکہ اسے ایسے اپنا لیتے ہیں جیسے کہ اس شک کے علاوہ دنیا میں ان کا کبھی کوئی تھا ہی نہیں۔ یہ انسانی سوچ کی دوسری منزل ہے جسے Critical Thought کہا جاتا ہے۔ جب انسان اس منزل پر پہنچتا ہے تو جذبہ حب الوطنی، ثقافت کی پابندی وغیرہ اس میں سے ختم ہو جاتے ہیں اور وہ قوم، روایت، دین اور اپنے ورثے کو گریبان سے پکڑ کر یوں عدالت میں گھسیٹتا پھرتا ہے جیسے یہ کوئی مجرم ہوں۔

ان پر مقدمہ چلانے کے لیے جو وکیل وہ استعمال کرتا ہے وہ منطق ہے اور یہ عدالت نہ بزرگوں کو بخشتی ہے نہ ہی پیروں کو۔ جب منطق کو ہنٹر بنا کے یہ تہزیب کو مارتی ہے تو ایک دوسرے قسم کے معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے Critical Society کہا جاتا ہے۔ اگر ان معاشروں میں آپ خدا کو تلاش کریں گے تو وہ تہزیب کے نہیں بلکہ منطق کے سامنے سجدے میں پڑا ملے گا۔ سائنس اس معاشرے کا بچہ ہے اور یہی وہ معاشرہ ہے جو آئن اسٹائن، نیوٹن اور سٹیفن ہاکنگ پیدا کرتا ہے۔

مگر اس معاشرے کی ایک کمزوری ہے جو وہی لوگ پہچانتے ہیں جو scientific thought میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ سائنسی سوچ یا تنقیدی سوچ انہیں پانچ senses پر انحصار کر کے کائنات کا تصور قائم کرتی ہے جو انسان کے پاس ہیں۔ سائنسدانوں کو اپنی تحقیق میں اس بات کا کبھی نہ کبھی احساس ضرور ہو جاتا ہے کہ بہت سے معاملات کو سمجھنے کے لیے یہ 5 senses کافی نہیں۔ کائنات میں بہت سی چیزوں کا وجود اپنے آپ کو اس شکل میں ظاہر ہی نہیں کرتا کہ ہمارے پانچ انسانی احساسات اس کو محسوس کرسکیں۔ ان کے احساس کے لیے جن sensory receptors کی ضرورت ہے وہ شاید شارک مچھلیوں اور ڈالفن میں تو ہوں مگر ہم میں نہیں۔ یعنی منطق کا مقصد حقیقت پہچاننا نہیں ہے بلکہ اپنی حدود پہچاننا ہے۔

جب منظق اپنی حدود جان لیتا ہے تو انسانی سوچ مزید آگے بڑھتی ہے اور اس بار یہ منطق کی گاڑی پر سوار ہی نہیں ہوتی۔ موجودہ دور کے انسان کے لیے عقل کی اس مزل کو سمجھنا کچھ آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے پیدائش سے اب تک صرف دو قسم کے معاشرے دیکھے ہیں۔ ایک تو مسلمان معاشرے جو اپنی سوچ کے لحاظ سے پہلی سطح کے معاشروں یعنی Cultural Conformism میں آتے ہیں اور دوسرے مغربی معاشرے ہیں جو reason based societies ہیں۔ یہاں تہذیب گا گلا گھونٹ دیا گیا ہے تاکہ انسان شک کر سکے۔

تیسری قسم کا معاشرہ آج موجود ہی نہیں۔ اگر کوئی سچی نیت سے خدا کو بھی تلاش کرنا چاھے گا تو وہ انہیں دو ماڈلز میں رہ کر کرے گا کیونکہ ہم نے تو کیا ہماری کئی نسلوں نے ان دو ماڈلز کے علاوہ کبھی کوئی اور قسم کا معاشرہ نہیں دیکھا۔ لیکن اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو انسان ماضی میں کئی بار ایسے معاشرے قائم کر چکا ہے جن میں سوچ، تہذیب اور منطق دونوں کی غلامی سے آزاد ہو کر حقیقت کو تلاش کرنے روانہ ہو چکی تھی۔

اگر ایسے معاشروں کو تلاش کرنے ہم تاریخ میں پیچھے جائیں تو مولانا رومی سے ہمارا ضرور واسطہ پڑے گا۔ آج سے 800 برس پہلے کی مسلمان سوچ الجبرا اور Cataract Surgery جیسی سائنسی دریافتیں کرنے کے بعد ایک ایسے سفر پر روانہ ہو چکی تھی جس پر اگر انسان چلتا رہے تو آگے جا کر روحانیت، منطق کا بالکل ایسے گریبان پکڑتی ہے جیسے اس نے اپنی جوانی میں تہذیب کا پکڑا تھا۔ اس دور کا انسان ایسے معجزے کرنے کی صلا حیت رکھتا ہے جو نیوٹن کو ہکا بکا کر دیں اور آئن اسٹائن کو بھی اس کی اوقات یاد دلا دیں۔ لیکن عقل کی یہ منزل بھی حدود رکھتی ہے۔ جب یہ حدود پار ہو جاتی ہیں تو خدا بندے سے خود مخاطب ہو جاتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔

بتا تیری رضا کیا ہے؟
XS
SM
MD
LG