اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد شاید چند لوگ ناراض بھی ہوں گے اور احتجاج بھری emails بھی لکھیں گے۔ اس سے پہلے کے میں اس بات کو آگے بڑھاوں ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی پرانی نسل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ تعالی نے ایسے بزرگ، استاد، پڑوسی اور سینئر کولیگ عطا کیے جنہوں نے مختلف چیزوں کو سمجھنے میں میری بہت مدد کی۔
مجھے یقین ہے کہ اس بلاگ کے پڑھنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ آپ کے والدین، رشتہ دار حلقہ احباب میں بہت سے ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جو آپ کے لیے رول ماڈل ہونگے۔ اس بلاگ میں میری تنقید تمام لوگوں کی طرف نہیں ہے بلکہ اس اجتماعی نفسیات کی طرف ہے جسے ہم تہذیب کہتے ہیں۔
یعنی مشرقی تہذیب کے تمام لوگ ایک جگہ جمع کیے جائیں۔ ان میں ہمارے والدین، بزرگ، رشتے دار، اساتذہ سب شامل ہوں۔ ان میں اچھے بھی ہوں اور برے بھی، تنگ نظر بھی ہوں اور روشن خیال بھی، مذہبی بھی ہوں اور غیر مذہبی بھی۔ پھر ان تمام لوگوں کا ایک ہی آدمی بنا دیا جائے !
ایک ایسا انسان جو کروڑوں افراد کی شخصیات کو جمع کرنے کے بعد بنایا گیا ہے تو یہ انسان کیسا ہو گا؟ اس بلاگ میں میں آپ کی اس انسان سے ملاقات کرانا چاہتا ہوں یعنی مشرقی تہذیب کا Sum of all parts
اگر پوری مشرقی تہذیب ایک آدمی ہو تو وہ ایک نہایت خوف زدہ انسان ہو گا۔ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا سے ڈرا ہوا اور ایسی نفسیاتی پناہ گاہ کی تلاش میں جہاں اس سے مسلسل تبدیلی کا مطالبہ نہ کیا جارہا ہو۔ یہ نفسیاتی پناہ گاہ اس نے اپنے چاروں طرف کلچر کے نام پر کھڑی کی ہوگی اور یہ اس میں گھس کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوگا۔ ثقافت انسان سے مسلسل تبدیلی کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ماضی کے رویوں کو دہرانے پر اسے شاباشی دیتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کے نقشے پر انہی جگہوں پر پروان چڑھتی نظر آتی ہے جہاں لوگ ترقی اور تبدیلی سے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔
پوری مشرقی تہذیب کو جمع کر کے اگر اس کا ایک آدمی بنا دیا جائے تو یہ ایک ایسی شخصیت ہوگی جسے انگریزی زبان میں Isolationist Paranoid کہتے ہیں۔ اس قسم کے انسان کو اس کلچر کے اندر بند کر کے نہیں سمجھا جا سکتا جو اس نے خود اپنے چاروں طرف پیدا کیا ہے۔ اگر آپ اس شخص کو جاننا چاہتے ہیں تو اسے کبھی مغربی ممالک میں آکر دیکھیے جہاں اپنی کمزوریوٕں پر ثقافت کے پردے چڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔
امریکہ میں لوگ دنیا کے ہر علاقے سے آتے ہیں۔ جب مشرقی تہذیب کا یہ واحد شخص امریکہ آتا ہے تو یہ اس consensus سے باہر آجاتا ہے جہاں کسی بھی علاقے یا خاندان کی چھاپ اپنے اوپر لگا کر معاشرے کی قبولیت حاصل کی جاسکے۔ وہ تمام عوام جو اس شخص کی تہزیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں وہ اس کو پھر بہت اچھی طرح سے پہچاننے لگتے ہیں۔
انہیں نظر آتا ہے کہ جو شلوار اس نے آج پہنی ہے وہ چار سو سال پہلے بھی ایسی ہی تھی، یہ گھر جا کر جو بریانی کھاتا ہے وہ بھی سینکڑوں سال پرانی ہے اور اس کے تیوہار اور سماجی رویوٕں میں بھی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
جب یہ اپنا سودا خریدنے بازار جاتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں جیسے اس پر پچھلے چار یا پانچ سو سال گزرے ہی نہ ہوں۔ اس بے عزتی سے بچنے کے لیے یہ اپنی گوشت کی دوکانیں الگ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ میں چند حلال گوشت کی دوکانیں ایسی بھی ہیں جہإں گوشت نہیں ملتا کیونکہ لائسنس نہیں ہے۔ یہاں مشرقی تہذیب کا ایک شخص حلال چاول خریدنے آتا ہے اور حلال گوبھیاں خریدتا ہے۔ جب ذبیحہ بینگن اور ٹماٹر کھا لیتا ہے تو اسے بینک جانا پڑتا ہے جہاں دور حاضر کی پتلونیں اس کو ذلت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ پھر یہ چاہتا ہے کہ اپنے بینک بھی الگ بنوائے جہاں حلال گوبھیوں اورحلال بینگنوں کی طرح حلال قرضے مل رہے ہوں۔ پھر یہ اپنے اسکول الگ کرائے گا اور اگر اس کا بس چلے تو یہ پورے امریکہ میں حلال پارکنگ لاٹ قائم کرا ڈالے جہاں صرف ذبیحہ کاریں کھڑی ہوں۔ پھر یہ حلال ایئر پورٹ بنوائے گا جہاں حلال جہاز اتریں۔ یعنی یہ اپنے اور باقی دنیا کے درمیان زیادہ سے زیادہ ثقافتی فاصلے پیدا کرے گا تاکہ direct comparison سے بچ سکے۔
مگر اس شخص کا سب سے بڑا خوف باقی دنیا نہیں بلکہ اس کی اپنی اولاد ہے۔ جتنا یہ اپنی اولاد سے ڈرتا ہے اتنا یہ اور کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا۔ امریکہ میں اس کی اولاد اپنے چاروں طرف تبدیل ہوتا ہوا ماحول روزانہ دیکھتی ہے۔ اس کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ باقی دنیا کےصحیح اور غلط کے تصورات کتنی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جب اس کی اولاد اس سے کہتی ہے کہ ہم کیوں نہیں بدلتے تو یہ اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ زندگی آگے بڑھنے کی ریس نہیں بلکہ ایک جگہ کھڑے ہونے کی ریس ہے۔ جو زیادہ دیر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے وہی اس دوڑ میٕں فاتح قرار پاتا ہے۔
یعنی وہ اپنی اولاد کو reverse doctrine سے irrational بناتا ہے۔ مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کی اولاد اپنے ساتھ وہ خوف یا احساس کمتری لے کر نہیں آئی جو اسے تاریخ سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ زندگی کے فیصلے نسلی یا ثقافتی تعصب کے بجائے Open Merit پر کرنا چاہتی ہے۔ اس خوفزدہ شخص کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس کی اولاد نے دنیا کو Open Merit کی نظر سے ایک بار دیکھ لیا تو اس کے بارے میں وہی رائے قائم کرے گی جو باقی دنیا کی ہے۔ اس وجہ سے یہ شخص اپنی اولاد کی مرضی دباتا ہے، ان کی خودی کو کچلتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے بے فیصلہ ہو کر رہ جائے۔
سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ شخص مذہب کی تبلیغ شروع کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں دین وہ ہتھوڑا ہے جس سے یہ ہر تبدیل ہوتی ہوئی چیز کو توڑنا چاہتا ہے۔ یہ ٹی وی توڑے گا، سینیما ہال مسمار کرے گا اور یو ٹیوب پر پابندیاں لگوائے گا تاکہ وہ نظریاتی فالج جسے ثقافت کہا جاتا ہے لوگوں کے ذہنوں پرقائم رہ سکے۔ یہی اس کی چرس ہے یہی اس کی افیون ہے یہ اسے بچانے کے لیے باقی تمام دنیا توڑ دے گا۔
اگر اس شخص سے آپ نے کسی بھی قسم کی روحانی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے خدا کو بیٹھے بٹھائے Farmboy Complex ہو گیا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اللہ میاں نے اتنی بڑے کائنات بنائی جو مسلسل حرکت میٕں ہے، اسے ایک ایسے دھماکےسے شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ جس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ NASA کے probes بے بس ہو گئے۔ کمپیوٹروں میں موجود Algorithms نے جواب دے دیا اور Time اور Space کو ناپنے کے تمام انسانی پیمانوں نے کہہ دیا کہ کائنات ایک ایسی تبدیلی ہے جسے ہم نہیں ناپ سکتے۔
لیکن پھر اچانک اسی خدا کو وہ احساسِ کمتری بھی ہو گیا جو دیہی آبادیوں کو ہوتا ہے جب وہ شہروں میں آتی ہے۔ یعنی Big Bang کے بعد خدا کو شلواریں اچھی لگنے لگیں اور وہ نکاح ناموں پر گواہوں کے دستخط چیک کرنے لگے۔ ان کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ویڈیو کیمرا ایجاد ہو گیا ہے اور شادی کی تقریب کی ویڈیو بن رہی ہے جس نےگواہوں کی ضرورت کو 30 سال پہلے دنیا سے مٹا دیا تھا۔
مجھے ثقافت سے سب سے بڑے گلہ یہ ہے کہ جب تک یہ خدا کو اپنا پابند نہیں بنا لیتی یہ اس کی تبلیغ نہیں کرتی۔
تاریخ ایک بار پھر اس موڑ پر آ کر رک چکی ہے کے اسے آگے بڑھنے کے لیے بزرگوں کی نہیں بلکہ یتیموں کی ضرورت ہے۔ جب تہذیب بے بس معاشروں کی افیون بن جاتی ہے اور بڑے بچوں کو ثقافت کے زہریلے انجیکشن لگا لگاکر نظریاتی فالج میں مبتلا کرتے ہیں تو تاریخ آگے بڑھنے کے لیے یتیموں کے قدموں میں جا کر گر جاتی ہے۔ یہ پھر ایک ایسا یتیم کھڑا کرتی ہے جو تہذیب کے بے زبان بت زمین پر گراتا ہے اور روحانیت کو ثقافت کی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ یہ وہ یتیم ہے جسے ہم نے اپنے اندر ڈھونڈنا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس بلاگ کے پڑھنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ آپ کے والدین، رشتہ دار حلقہ احباب میں بہت سے ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جو آپ کے لیے رول ماڈل ہونگے۔ اس بلاگ میں میری تنقید تمام لوگوں کی طرف نہیں ہے بلکہ اس اجتماعی نفسیات کی طرف ہے جسے ہم تہذیب کہتے ہیں۔
یعنی مشرقی تہذیب کے تمام لوگ ایک جگہ جمع کیے جائیں۔ ان میں ہمارے والدین، بزرگ، رشتے دار، اساتذہ سب شامل ہوں۔ ان میں اچھے بھی ہوں اور برے بھی، تنگ نظر بھی ہوں اور روشن خیال بھی، مذہبی بھی ہوں اور غیر مذہبی بھی۔ پھر ان تمام لوگوں کا ایک ہی آدمی بنا دیا جائے !
ایک ایسا انسان جو کروڑوں افراد کی شخصیات کو جمع کرنے کے بعد بنایا گیا ہے تو یہ انسان کیسا ہو گا؟ اس بلاگ میں میں آپ کی اس انسان سے ملاقات کرانا چاہتا ہوں یعنی مشرقی تہذیب کا Sum of all parts
اگر پوری مشرقی تہذیب ایک آدمی ہو تو وہ ایک نہایت خوف زدہ انسان ہو گا۔ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا سے ڈرا ہوا اور ایسی نفسیاتی پناہ گاہ کی تلاش میں جہاں اس سے مسلسل تبدیلی کا مطالبہ نہ کیا جارہا ہو۔ یہ نفسیاتی پناہ گاہ اس نے اپنے چاروں طرف کلچر کے نام پر کھڑی کی ہوگی اور یہ اس میں گھس کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوگا۔ ثقافت انسان سے مسلسل تبدیلی کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ماضی کے رویوں کو دہرانے پر اسے شاباشی دیتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کے نقشے پر انہی جگہوں پر پروان چڑھتی نظر آتی ہے جہاں لوگ ترقی اور تبدیلی سے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔
پوری مشرقی تہذیب کو جمع کر کے اگر اس کا ایک آدمی بنا دیا جائے تو یہ ایک ایسی شخصیت ہوگی جسے انگریزی زبان میں Isolationist Paranoid کہتے ہیں۔ اس قسم کے انسان کو اس کلچر کے اندر بند کر کے نہیں سمجھا جا سکتا جو اس نے خود اپنے چاروں طرف پیدا کیا ہے۔ اگر آپ اس شخص کو جاننا چاہتے ہیں تو اسے کبھی مغربی ممالک میں آکر دیکھیے جہاں اپنی کمزوریوٕں پر ثقافت کے پردے چڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔
امریکہ میں لوگ دنیا کے ہر علاقے سے آتے ہیں۔ جب مشرقی تہذیب کا یہ واحد شخص امریکہ آتا ہے تو یہ اس consensus سے باہر آجاتا ہے جہاں کسی بھی علاقے یا خاندان کی چھاپ اپنے اوپر لگا کر معاشرے کی قبولیت حاصل کی جاسکے۔ وہ تمام عوام جو اس شخص کی تہزیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں وہ اس کو پھر بہت اچھی طرح سے پہچاننے لگتے ہیں۔
انہیں نظر آتا ہے کہ جو شلوار اس نے آج پہنی ہے وہ چار سو سال پہلے بھی ایسی ہی تھی، یہ گھر جا کر جو بریانی کھاتا ہے وہ بھی سینکڑوں سال پرانی ہے اور اس کے تیوہار اور سماجی رویوٕں میں بھی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
جب یہ اپنا سودا خریدنے بازار جاتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں جیسے اس پر پچھلے چار یا پانچ سو سال گزرے ہی نہ ہوں۔ اس بے عزتی سے بچنے کے لیے یہ اپنی گوشت کی دوکانیں الگ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ میں چند حلال گوشت کی دوکانیں ایسی بھی ہیں جہإں گوشت نہیں ملتا کیونکہ لائسنس نہیں ہے۔ یہاں مشرقی تہذیب کا ایک شخص حلال چاول خریدنے آتا ہے اور حلال گوبھیاں خریدتا ہے۔ جب ذبیحہ بینگن اور ٹماٹر کھا لیتا ہے تو اسے بینک جانا پڑتا ہے جہاں دور حاضر کی پتلونیں اس کو ذلت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ پھر یہ چاہتا ہے کہ اپنے بینک بھی الگ بنوائے جہاں حلال گوبھیوں اورحلال بینگنوں کی طرح حلال قرضے مل رہے ہوں۔ پھر یہ اپنے اسکول الگ کرائے گا اور اگر اس کا بس چلے تو یہ پورے امریکہ میں حلال پارکنگ لاٹ قائم کرا ڈالے جہاں صرف ذبیحہ کاریں کھڑی ہوں۔ پھر یہ حلال ایئر پورٹ بنوائے گا جہاں حلال جہاز اتریں۔ یعنی یہ اپنے اور باقی دنیا کے درمیان زیادہ سے زیادہ ثقافتی فاصلے پیدا کرے گا تاکہ direct comparison سے بچ سکے۔
مگر اس شخص کا سب سے بڑا خوف باقی دنیا نہیں بلکہ اس کی اپنی اولاد ہے۔ جتنا یہ اپنی اولاد سے ڈرتا ہے اتنا یہ اور کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا۔ امریکہ میں اس کی اولاد اپنے چاروں طرف تبدیل ہوتا ہوا ماحول روزانہ دیکھتی ہے۔ اس کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ باقی دنیا کےصحیح اور غلط کے تصورات کتنی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جب اس کی اولاد اس سے کہتی ہے کہ ہم کیوں نہیں بدلتے تو یہ اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ زندگی آگے بڑھنے کی ریس نہیں بلکہ ایک جگہ کھڑے ہونے کی ریس ہے۔ جو زیادہ دیر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے وہی اس دوڑ میٕں فاتح قرار پاتا ہے۔
یعنی وہ اپنی اولاد کو reverse doctrine سے irrational بناتا ہے۔ مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کی اولاد اپنے ساتھ وہ خوف یا احساس کمتری لے کر نہیں آئی جو اسے تاریخ سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ زندگی کے فیصلے نسلی یا ثقافتی تعصب کے بجائے Open Merit پر کرنا چاہتی ہے۔ اس خوفزدہ شخص کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس کی اولاد نے دنیا کو Open Merit کی نظر سے ایک بار دیکھ لیا تو اس کے بارے میں وہی رائے قائم کرے گی جو باقی دنیا کی ہے۔ اس وجہ سے یہ شخص اپنی اولاد کی مرضی دباتا ہے، ان کی خودی کو کچلتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے بے فیصلہ ہو کر رہ جائے۔
سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ شخص مذہب کی تبلیغ شروع کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں دین وہ ہتھوڑا ہے جس سے یہ ہر تبدیل ہوتی ہوئی چیز کو توڑنا چاہتا ہے۔ یہ ٹی وی توڑے گا، سینیما ہال مسمار کرے گا اور یو ٹیوب پر پابندیاں لگوائے گا تاکہ وہ نظریاتی فالج جسے ثقافت کہا جاتا ہے لوگوں کے ذہنوں پرقائم رہ سکے۔ یہی اس کی چرس ہے یہی اس کی افیون ہے یہ اسے بچانے کے لیے باقی تمام دنیا توڑ دے گا۔
اگر اس شخص سے آپ نے کسی بھی قسم کی روحانی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے خدا کو بیٹھے بٹھائے Farmboy Complex ہو گیا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اللہ میاں نے اتنی بڑے کائنات بنائی جو مسلسل حرکت میٕں ہے، اسے ایک ایسے دھماکےسے شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ جس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ NASA کے probes بے بس ہو گئے۔ کمپیوٹروں میں موجود Algorithms نے جواب دے دیا اور Time اور Space کو ناپنے کے تمام انسانی پیمانوں نے کہہ دیا کہ کائنات ایک ایسی تبدیلی ہے جسے ہم نہیں ناپ سکتے۔
لیکن پھر اچانک اسی خدا کو وہ احساسِ کمتری بھی ہو گیا جو دیہی آبادیوں کو ہوتا ہے جب وہ شہروں میں آتی ہے۔ یعنی Big Bang کے بعد خدا کو شلواریں اچھی لگنے لگیں اور وہ نکاح ناموں پر گواہوں کے دستخط چیک کرنے لگے۔ ان کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ویڈیو کیمرا ایجاد ہو گیا ہے اور شادی کی تقریب کی ویڈیو بن رہی ہے جس نےگواہوں کی ضرورت کو 30 سال پہلے دنیا سے مٹا دیا تھا۔
مجھے ثقافت سے سب سے بڑے گلہ یہ ہے کہ جب تک یہ خدا کو اپنا پابند نہیں بنا لیتی یہ اس کی تبلیغ نہیں کرتی۔
تاریخ ایک بار پھر اس موڑ پر آ کر رک چکی ہے کے اسے آگے بڑھنے کے لیے بزرگوں کی نہیں بلکہ یتیموں کی ضرورت ہے۔ جب تہذیب بے بس معاشروں کی افیون بن جاتی ہے اور بڑے بچوں کو ثقافت کے زہریلے انجیکشن لگا لگاکر نظریاتی فالج میں مبتلا کرتے ہیں تو تاریخ آگے بڑھنے کے لیے یتیموں کے قدموں میں جا کر گر جاتی ہے۔ یہ پھر ایک ایسا یتیم کھڑا کرتی ہے جو تہذیب کے بے زبان بت زمین پر گراتا ہے اور روحانیت کو ثقافت کی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ یہ وہ یتیم ہے جسے ہم نے اپنے اندر ڈھونڈنا ہے۔