بنگلہ دیش کی حکومت نے بدھ کے روز جیل میں بند اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کو چھ ماہ کے لیے مشروط رہائی دینے کا اعلان کیا ہے، ''بشرطیکہ وہ گھر پر رہیں گی اور ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گی''۔
خالدہ ضیا گزشتہ دو سال سےبنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم بنگلہ بندُھو شیخ مجیب الرحمان میڈیکل یونیورسٹی کے جیل سیل میں قید تھیں۔ اُن کے اہلِ خانہ اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے سینکڑوں پارٹی کارکنوں کے ساتھ جیل سے رہائی پر ان کا استقبال کیا۔
پارٹی کے کارکن، کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اجتماعات پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باہر نکلے تھے۔
ماسک پہنے، خالدہ ضیا ایک وہیل چیئر پر ہسپتال کی جیل سے باہر آئیں، اور پھر ایک گاڑی میں بیٹھ کر گھر چلی گئیں۔
منگل کے روز، بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق کا کہنا تھا کہ 74 سالہ خالدہ ضیا کو اُن کی عمر کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔ ان کا علاج اب گھر پر ہو گا۔
خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے دو مقدمات میں 17 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ خالدہ ضیا کی جماعت، بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ اُن پر بنائے گئے مقدمات سیاسی انتقام پر مبنی تھے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
خالدہ ضیا کی جماعت کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیا سخت بیمار ہیں اور اُنہیں سانس اور جوڑوں میں درد کی شکایت ہے۔
اس سال فروری میں، خالدہ ضیا نے ملک کی اعلیٰ عدالت میں جوڑوں کے شدید درد کے علاج کیلئے برطانیہ جا کر علاج کرانے کی درخواست دائر کی تھی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
خالدہ ضیا اور حسینہ واجد دونوں ہی سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
خالدہ ضیا سیاست میں آنے والے ایک فوجی جرنیل ضیا الرحمان کی اہلیہ ہیں، جنہیں سن 1981ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حسینہ واجد، شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں، جو ملک کے پہلے صدر تھے۔ شیخ مجب الرحمان کو 1975ء میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش نے سن 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔