رسائی کے لنکس

افغان سرحد کے قریب عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں چار پاکستانی فوجی ہلاک


شمالی وزیرستان کا نقشہ
شمالی وزیرستان کا نقشہ

پاکستان نے جمعے کو افغان سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے چار فوجی ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ایک فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب پاکستانی فوجیوں نے شمالی وزیرستان کے سرحدی ضلع میر علی میں پاکستانی طالبان کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا۔

بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نےایک دہشت گرد کو اسلحے اور گولہ بارود سمیت گرفتار کیا۔

سیکیورٹی فورسز کے چھاپے کے بعد شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں چار اہل کار ہلاک ہو گئے۔

جمعے کے روز جاری ہونے والے پاکستانی فوج کے بیان میں اس ہلاکت خیز مقابلے کے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

بعض ذرائع کے مطابق یہ جھڑپ ایک روز پہلے ہوئی تھی۔

پاکستانی فوجی افغٖان سرحد کے قریب تباہ کیے گئے عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کے قریب کھڑے ہیں۔ فائل فوٹو
پاکستانی فوجی افغٖان سرحد کے قریب تباہ کیے گئے عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کے قریب کھڑے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان سے وائس آف امریکہ کے نمائںدے ایاز گل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کالعدم پاکستانی طالبان نے، جسے تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جمعرات کو اپنے ایک بیان میں وزیرستان کے علاقے میں اپنے ایک ٹھکانے پر سیکیورٹی فورسز کے چھاپے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس دوران ہونے والی جھڑپ میں متعدد پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے جب کہ ٹی ٹی پی کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایک اور خبر کے مطابق حکام نے جمعے کے روز بتایا کہ کوئٹہ میں جمعرات کو رات گئے سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر چھ ہو گئی ہے۔ جمعرات کی ابتدائی خبروں میں محکمہ صحت کے حکام نے چار افراد کی ہلاکت اور 15 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، جس کا نشانہ بننے والے تمام افراد عام شہری تھے۔

پاکستان کے کم آبادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں کئی برسوں سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور عام شہری عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ تشدد کے ان واقعات کی ذمہ داری عموماً علیحدگی پسند مسلح بلوچ گروپ، پاکستانی طالبان اور کبھی کبھار داعش سے منسلک شدت پسند قبول کرتے رہے ہیں۔

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما کئی برس پہلے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب اپنے مضبوط ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے جہاں سے اب وہ اپنی پناہ گاہوں سے ریاست مخالف سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے خودکش بم دھماکوں اور دیگر دہشت گرد حملوں میں ہزاروں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے اہل کار اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

'طالبان سے دوستی کرنا آسان نہیں ہو گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

امریکہ اور اقوام متحدہ نے ٹی ٹی پی کو عالمی دہشت گرد گروپ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں افغانستان کے حکمران طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کیے تھے، جس کے نتیجے میں 30 دن کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔

تاہم، ٹی ٹی پی نے دسمبر کے شروع میں جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں توسیع نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے اس سلسلے میں ہونے والے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کے بعد سے اس نے افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں پاکستانی فوجیوں اور پولیس فورسز پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG