واشنگٹن —
امریکہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں لیبیا کے شہر بن غازی پر ہونے والےمسلح حملے کےکلیدی مشتبہ شدت پسند کو پکڑ لیا گیا ہے، جس حملے میں سفیر کرسٹوفر اسٹیفنز اور تین دیگر امریکی ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی محکمہٴدفاع نے منگل کے روز کہا کہ قانون کا نفاذ کرنے والے اہل کاروں کے ہمراہ فوج کے ایک دستے نے اتوار کے روز احمدابو خطالہ کو گرفتار کیا اور اُنھیں لیبیا سے باہر ایک محفوظ مقام پر تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اُن کی شناخت، لیبیا میں کارفرما دہشت گرد گروہ، ’انصار الشریعہ‘ کے بن غازی شاخ کے ایک سینئر سرغنے کے طور پر کی گئی ہے۔ متوقع طور پر، اُن کے خلاف ایک امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
فوجی اہل کاروں نے کی گئی اِس کارروائی سے متعلق تفصیل بیان نہیں کی۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی سویلین ہلاکتیں واقع نہیں ہوئیں اور یہ کہ اس میں ملوث تمام امریکی اہل کار بحفاظت لیبیا سے روانہ ہوگئے ہیں۔
امریکہ نے گذشتہ برس خطالہ اور دیگر مشتبہ افراد کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، لیکن ابھی تک کسی کو تحویل میں نہیں لیا گیا تھا۔
گیارہ ستمبر، 2012ء کا یہ حملہ سنہ 2001میں القاعدہ کی طرف سے امریکہ پر ہونے والے حملوں کی برسی کے موقعےپر ہوا، جن دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بن غازی حملے کے حوالے سے حقائق کے بارے میں امریکی سیاست میں متنازعہ فی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔ ریبپلیکنز نے ہیلری رودھم کلنٹن پر، جو 2016ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہیں، بن غازی کے احاطے میں ہونے والے اِن حملوں کو روکنے کے لیے مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھیں۔
ابتدائی طور پر، وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں نے اشارہ دیا تھا کہ یہ حملہ مسلمان مخالف وِڈیو پر ہونے والے احتجاج کا شاخسانہ ہے، جس قسم کے مظاہرے ستمبر 2012ء کے اوائل میں مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات پر ہو رہے تھے۔ تاہم، بعدازاں، امریکی حکام نے یہ بات تسلیم کی کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا۔
اِن حملوں کے بارے میں ایک نیا، ریپبلیکن اکثریت والی کانگریس کا پینل، آئندہ ہفتوں کے دوران سماعت کرنے والا ہے۔
امریکی محکمہٴدفاع نے منگل کے روز کہا کہ قانون کا نفاذ کرنے والے اہل کاروں کے ہمراہ فوج کے ایک دستے نے اتوار کے روز احمدابو خطالہ کو گرفتار کیا اور اُنھیں لیبیا سے باہر ایک محفوظ مقام پر تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اُن کی شناخت، لیبیا میں کارفرما دہشت گرد گروہ، ’انصار الشریعہ‘ کے بن غازی شاخ کے ایک سینئر سرغنے کے طور پر کی گئی ہے۔ متوقع طور پر، اُن کے خلاف ایک امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
فوجی اہل کاروں نے کی گئی اِس کارروائی سے متعلق تفصیل بیان نہیں کی۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی سویلین ہلاکتیں واقع نہیں ہوئیں اور یہ کہ اس میں ملوث تمام امریکی اہل کار بحفاظت لیبیا سے روانہ ہوگئے ہیں۔
امریکہ نے گذشتہ برس خطالہ اور دیگر مشتبہ افراد کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، لیکن ابھی تک کسی کو تحویل میں نہیں لیا گیا تھا۔
گیارہ ستمبر، 2012ء کا یہ حملہ سنہ 2001میں القاعدہ کی طرف سے امریکہ پر ہونے والے حملوں کی برسی کے موقعےپر ہوا، جن دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بن غازی حملے کے حوالے سے حقائق کے بارے میں امریکی سیاست میں متنازعہ فی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔ ریبپلیکنز نے ہیلری رودھم کلنٹن پر، جو 2016ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہیں، بن غازی کے احاطے میں ہونے والے اِن حملوں کو روکنے کے لیے مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھیں۔
ابتدائی طور پر، وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں نے اشارہ دیا تھا کہ یہ حملہ مسلمان مخالف وِڈیو پر ہونے والے احتجاج کا شاخسانہ ہے، جس قسم کے مظاہرے ستمبر 2012ء کے اوائل میں مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات پر ہو رہے تھے۔ تاہم، بعدازاں، امریکی حکام نے یہ بات تسلیم کی کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا۔
اِن حملوں کے بارے میں ایک نیا، ریپبلیکن اکثریت والی کانگریس کا پینل، آئندہ ہفتوں کے دوران سماعت کرنے والا ہے۔