رسائی کے لنکس

برلن مارکیٹ حملہ ہمارے جنگجو نے کیا داعش


Germany Christmas Market
Germany Christmas Market

شدت پسند تنظیم داعش نے پیر کو برلن کی ایک مارکیٹ میں ٹرک حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس واقعے میں ملوث ٹرک کا ڈرائیور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور ابھی تک اس کی تلاش جاری ہے۔

اس سے پہلے جرمنی کی پولیس نے حملے کے شبے میں گرفتار کیے گئے پاکستانی نوجوان کو رہا کر دیا ہے۔ برلن کے پولیس چیف یہ ثابت نہیں کر پائے کہ آیا حکام نے صحیح ملزم کو پکڑا تھا۔

پیر کو ایک پرہجوم کرسمس مارکیٹ پر تیز رفتاری سے ٹرک چڑھا کر 12 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کرنے کے الزام میں پولیس نے اس 23 سالہ نوجوان کو پکڑا تھا۔

نوجوان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان سے آیا تھا اور اس نے پناہ کے لیے درخواست دائر کی تھی جس پر ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

اس سے پہلے کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی کی پولیس نے کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھانے کے شبے میں جس پاکستانی پناہ گزین کو پکڑا تھا، اس کے بارے میں برلن پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہی شخص ٹرک چلا رہا تھا۔

اس سے قبل 23 سالہ گرفتار شخص جس کا نام نوید بتایا جا رہا ہے، وہ تقریباً ایک سال پہلے پاکستان سے جرمنی آیا تھا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس دکھ کی گھڑی میں جرمنی کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ سب کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

اس سے قبل جرمنی میں پولیس نے کہا تھا کہ برلن میں ایک پرہجوم کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھانے کا واقعہ دانستہ تھا اور اس معاملے کو مشتبہ ’’دہشت گرد‘‘ حملے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

پیر کی شام جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک پرہجوم مارکیٹ میں خریداری میں مصروف لوگوں پر ٹرک چڑھ دوڑا جس سے کم ازکم 12 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے۔

چانسلر آنگیلا مرخیل نے منگل کو کہا کہ حکام اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا یا نہیں۔

مشتبہ ڈرائیور جو کہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، اُسے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آتی رہیں کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔

تاہم گرفتار کئے گئے مشتبہ شخص نے اس واقعے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

جرمنی کے وزیر داخلہ تھامس ڈی میزئیر کا کہنا تھا کہ مشتبہ شخص کا تعلق پاکستان سے ہے جو کہ گزشتہ 31 دسمبر کو جرمنی اور پھر فروری میں برلن آیا تھا۔ ان کے بقول اس شخص نے جرمنی میں پناہ کے لیے درخواست بھی جمع کروا رکھی ہے۔

پیر کی شام شہرہ آفاق کائزر ولہیلم میموریل چرچ کے باہر کرسمس کے تہوار کے لیے سجائے گئے بازار میں لوگ خریداری میں مصروف تھے کہ اچانک ایک ٹرک یہاں گھس آیا۔

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ "بظاہر یہ دہشت گرد حملہ معلوم ہوتا ہے۔"

اس سے قبل جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈی میزئیر نے کا کہا تھا کہ واقعے کے محرکات واضح نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس مشتبہ شخص سے تفتیش کر رہی ہے اور اس کا ٹرک میں موجود مرنے والے دوسرے شخص سے تعلق معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ واقعے کے وقت جائے وقوع پر سیاحوں اور مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ ٹرک لگ بھگ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے یہاں گھس آیا۔ حکام کے مطابق ٹرک سٹیل کے بالے لدے ہوئے تھے۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب رواں ماہ ہی امریکی محکمہ خارجہ نے یورپ میں بازاروں اور دیگر عوامی مقامات سے متعلق خطرے کا اتنباہ جاری کیا تھا۔

واقعے میں استعمال ہونے والے ٹرک پر پولینڈ کی نمبر پلیٹ لگی تھی اور امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے ٹرک کے مالک کے حوالے سے بتایا کہ اس کا رشتے دار یہ ٹرک لے کر گیا تھا اور اسے خدشہ ہے کہ یہ چوری کر لیا گیا تھا۔

اریئل زوراوسکی کے مطابق ٹرک لے جانے والے اپنے کزن سے اس واقعے سے کئی گھنٹے پہلے اس کی بات ہوئی تھی جس نے بتایا تھا کہ اس پر لدا سامان منگل کو اتارا جائے گا۔

"ہوسکتا ہے کہ میرے ٹرک ڈرائیور کے ساتھ کچھ برا کر دیا گیا ہو۔"

اس واقعے سے جولائی میں فرانس کے شہر نائس میں ہونے والے حملے کی یاد تازہ ہوئی، جس میں تیونس میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے 19 ٹن وزنی ٹرک کو لوگوں کے اوپر چڑھا دیا تھا، جب ’باسٹل ڈے‘ کی آتش بازی کی تقریب جاری تھی۔ اس حملے میں 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پولیس نے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

XS
SM
MD
LG