’دیوارِ برلن‘ کے انہدام کے 25 برس مکمل ہونے پر، جرمن لوگوں نے خوشیاں منائیں، جس موقع پر چانسلر آنگلہ مرخیل نے اُن افراد کے حوصلے کو سراہا جنھوں نے اِسے گرانے کے سلسلے میں کردار ادا کیا۔
جرمن رہنما نے اتوار کے روز منعقد ہونے والی متعدد تقریبات کی قیادت کی، جن میں سے ایک تقریب میں اُنھوں نے اس دیوار کے باقی ماندہ چند حصوں پر علامت کے طور پر گلاب کا ایک پھول رکھا، جس کا مقصد اُن افراد کو یاد کرنا تھا جو علیحدگی کے دور میں مغرب جانے کی کوشش کرتے ہوئے، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
دیوار کی مرکزی یادگار پر اپنے خطاب میں، مز مرخیل نے کہا کہ ’دیوار کا منہدم ہونا اِس بات کا غماز ہے کہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’سنگ کی صورت میں، یہ دیوار ریاستی ظلم کی داستان کی ایک علامت‘ ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کے لیے ’ناقابلِ برداشت نقش چھوڑے‘۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ دیوارِ برلن اُن ملکوں کے لیے سبق آموز معاملہ ہے، جنھیں آج کل جنگ کی تباہ کاری درپیش ہے، جِن میں یوکرین، شام اور عراق بھی شامل ہیں۔
مرخیل کے بقول، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہم یہ استطاعت رکھتے ہیں کہ اپنی قسمت سنوار سکیں اور معاملات کو سلجھائیں۔ اس دیوار کے گرائے جانے کے پیچھے یہی پیغام مضمر ہے۔ اس کا جرمنی سے تعلق ہے۔ لیکن، ساتھ ہی اس میں یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں کے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے، اور خصوصی طور پر یوکرین کے عوام کے لیے، شام، عراق اور دیگر خطوں کے لیے، جہاں انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہیں یا اُن کی انحرافی کا ارتکاب جاری ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت میں دِن کی تقریبات کا آغاز طبل بجا کر کیا گیا، جس طرح کہ روایات میں، بائیبل میں ’دیوارِ اریحہ‘ کو منہدم کیے جانے کا ذکر آتا ہے۔
إِس دن کی نسبت سے، موجودہ اور سابق عالمی رہنما نے دنیا کی اہم طاقتوں کے درمیان جاری تقسیم کے خلاف انتباہ جاری کیا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یوکرین کے خلاف روسی اقدامات اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ یورپ کے سارے علاقے کو، آزاد اور پُر امن بنانے کے لیے’ ابھی بہت سارا کام‘ کرنا باقی ہے۔
دیوار برلن نے جرمن دارالحکومت کو منقسم کر رکھا تھا، جو ’سرد جنگ‘ کی علامت بنا، جس میں جنگ عظیم دوئم کے بعد، امریکہ اور اُس کے اتحادی سابق سوویت یونین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔
سابق سوویت رہنما، میخائیل گورباچیف نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ دنیا ’ایک نئی سرد جنگ‘ کے دہانے پر کھڑی ہے، اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں اس کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے۔
برلن وال کی سالگرہ کی مناست سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر گورباچیف نے کہا ہے کہ دنیا کی اہم طاقتوں کے مابین مکالمے کے خاتمے کے تناظر میں، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی، ’انتہائی تشویش‘ کا باعث ہے۔
دیوار برلن 1961ء میں تعمیر ہوئی جس کے نتیجے میں تقریباً تین عشروں تک یہ شہر منقسم رہا۔ اس کے نتیجے میں، سوویت کنٹرول والا مشرقی جرمنی، مغربی جرمنی سے کٹ کر رہ گیا، جس پر جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد امریکی، فرانسسی اور برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔
کُل 161 کلومیٹر طویل یہ دیوار اس لیے تعمیر کی گئی تھی تاکہ مشرق سے لوگ مغرب کی طرف نہ جا پائیں۔ اس کے باعث، گلیاں اور مضافات تقسیم ہو کر رہ گئے، یہاں تک کہ خاندان کے خاندان اور قریبی احباب کے رشتے ناطے ٹوٹ گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ کمیونسٹ مشرقی برلن سے سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، تقریباً 140 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ متاثرین کے بقول، یہ تعداد 700 کے لگ بھگ ہے۔
نو نومبر، 1989ء کو جب مشرقی جرمنی کی حکومت نے مغربی برلن سفر پر پابندیاں اٹھالیں، جس سے قبل ہفتوں تک عوامی احتجاج جاری رہا، جو لپزگ کے مشرقی شہر سے شروع ہوا اور مشرقی برلن تک پھیل گیا۔
مشرقی اور مغربی جرمنی تین اکتوبر،1990ء میں دوبارہ ایک ہوئے۔