امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے وزیرِ اعظم سمیت 110 ممالک کے سربراہان کو جمہوریت کے لیے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے جو آئندہ ماہ منعقد کی جا رہی ہے۔
پاکستان نے تاحال اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ البتہ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو پہلا باضابطۂ دعوت نامہ ہے۔
ایسے میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول یا انکار کرنا آسان فیصلہ نہیں ہے۔
دوسری طرف چین اور روس نے اس کانفرنس کے انعقاد کو دنیا کو تقسیم کرنے کی امریکی کوشش قرار دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق کانفرنس میں شرکت سے اسلام آباد کی چین سے دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جب کہ عدم شرکت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے اہم موقع کو گنوا دے گی۔
صدر بائیڈن کی میزبانی میں آئندہ ماہ نو اور 10 دسمبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں چین اور روس کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ جب کہ تائیوان کو بلانے پر بیجنگ نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق کانفرنس کا مقصد جمہوریت کو در پیش چیلنجز سے نمٹنا اور اجتماعی اصلاحات سے اس کے ثمرات حاصل کرنا ہے۔
تاہم بعض مبصرین کی جانب سے اس کانفرنس کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ یہ عالمی سطح کی کانفرنس ہے جو امریکہ اپنے مقاصد اور پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف عنوانات سے پہلے بھی کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس عالمی ماحول میں یہ کانفرنس بلائی گئی ہے۔ اس میں امریکہ، چین کے حوالے سے خاصی ردِ عمل کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور حالیہ عرصے میں واشنگٹن جو بھی پالیسیاں بنا رہا ہے ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ چین کو کس طریقے سے روکا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کے مسلسل ابھرتے ہوئے عالمی کردار کی صورت حال میں امریکہ کی کوشش ہے کہ اپنے اتحادیوں کو اکٹھا کیا جائے اور پاکستان بھی عمومی طور پر واشنگٹن کے اتحادیوں میں شامل رہا ہے۔
شمشاد احمد خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانفرنس کے اغراض و مقاصد ہماری ترجیحات میں آتے ہیں اور اگر جمہوریت پر زور دے کر ہمارے دوستوں کو شرمندہ کرنا مقصد ہے تو پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ شرکت کا فیصلہ عمران خان کو کرنا ہے تاہم یہ صدر بائیڈن کی جانب سے کوئی باقاعدہ دعوت نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان کو کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ عالمی سطح کی یہ کانفرنس رسمی نوعیت کی ہوتی ہیں اور عمران خان شرکت کے حوالے سے محتاط ہوکر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ صرف اس لیے شرکت کی دعوت کو قبول نہیں کرنی چاہیے کہ یہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پہلی دعوت ہے۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کو اپنے تحفظات کو چھوڑ کر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی روایت کو دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کو واشنگٹن دورے کی باعزت اور باوقار دعوت دینی چاہیے۔
صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ باضابطہ بات چیت نہیں کی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی کانفرنس میں شرکت کرنے پر دونوں ملکوں کے سربراہان کا یہ پہلا باضابطہ رابطہ ہوگا۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ چین اور روس کے جمہوریت کانفرنس پر تحفظات ضرور ہو سکتے ہیں البتہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسرے ممالک کی اس وجہ سے پالیسی متاثر ہو۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سیاست میں ایسے نہیں ہوتا اور ہر ملک کی اپنی پالیسی رہتی ہے اور پاکستان کو اگر اس حوالے سے کوئی خدشات ہیں تو کانفرنس میں شریک ہوکر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کے باوجود اس کے بھارت سے بھی مراسم ہیں تو پاکستان نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اس طرح کے بلاکس نہیں ہیں کہ پاکستان ایک بلاک کے ساتھ ہے اور دوسرے کے ساتھ نہیں ہے کیوں کہ بہت سے معاملات پر ملک اپنی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔
زاہد حسین نے کہا کہ امریکہ نے خاص ملکوں کو دعوت دی ہے اس لحاظ سے چین اور روس کی تشویش ہوگی لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ کانفرنس ان کے خلاف بلاک کی صورت بن جائے۔
زاہد حسین نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں خاصی دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ بائیڈن کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ نہ کرنے کی اپنی وجوہات ہوں گی لیکن اسے کانفرنس سے الگ دیکھنا چاہیے۔
وزیرِ اعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان بلاکس کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور امریکہ و چین دونوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وزیرِ اعظم کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان جیسے ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چین اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔