ترکی شام میں داعش اور شام کی کرد فورسز کو ہدف بنا کر بمباری کر رہا ہے۔
اب جب کہ امریکہ شام کی کرد فورسز کی حمایت کر رہا ہے، اندیشہ ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دورہ ترکی کو متاثر کر سکتی ہیں۔
ترکی کی طرف سے پیر کو بھی شام کے سرحدی جرابلس میں داعش کی فورسز پر گولہ باری کرتی رہی ہیں۔ یہ قصبہ داعش کی ایک اہم رسدی گزر گاہ ہے۔ اور یہ ترک سرحد پر اس کے کنٹرول میں باقی رہ جانے والا آخری قصبہ ہے۔
یہ بمباری ترک وزیر خارجہ مولود چاوس اوغلو کی جانب سے اس وعدے کے بعد ہو رہی ہے کہ داعش کا سرحد سے قلع قمع کر دیا جائے گا۔
’’ہم داعش کی موجودگی کی شام کی سرحد کو صاف کر دیں گے۔‘‘
وزیر خارجہ مولود چاوس اوغلو نے یہ تبصرہ ترک شہر غازی عنتب میں ہفتے کے روزکردوں کی شادی کی ایک تقریب پر خود کش بمباری کے واقعے کے بعد کیا۔
ابتدائی رپورٹس داعش کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔
ترکی ، ترک حمایت یافتہ شامی آرمی فورسز کی جانب سے جرابلس پر قبضے کے لیے بڑے پیمانے پر متوقع ایک فوجی کارروائی سے قبل مدد کی غرض سے شام کی سرحد پر ٹینک جمع کر رہا ہے۔
لیکن ترک توپخانہ ’وائی پی جے‘ کی شامی کرد فورسز کو بھی ہدف بنا رہا ہے،اس اقدام کے بارے میںتاثر یہ ہے کہاس کامقصد باغی گروپس کی جانب سے جرابلس پر قبضے کی کوششوں کو متاثر کرنا ہے۔
’وائی پی جے‘ شامی ڈیمو کریٹک فورسز کی بڑی اکثریت پر مشتمل ہے جو امریکی فوج کی حمایت کے ساتھ داعش کو عبرتنا ک شکست کے ایک سلسلے سے دوچار کر چکی ہیں۔
لیکن انقرہ شامی کردوں پر دہشت گرد ہونےاور کرد باغی گروپ ’پی کے کے‘ کے ساتھ منسلک ہونےکا الزام عائد کرتا ہے۔ استنبول کی قادر ہیس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سولی اوزل کہتے ہیں کہ شامی کرد سیاسی پارٹی ’پی وائی ڈی‘ اور اس کے فوجی ونگ ’وائی پی ڈی‘ پر انقرہ اور واشنگٹن کےدرمیان اختلافات امریکی نائب صدر جو زف بائیڈن کے انقرہ کے حالیہدورے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
میں نے ایسی کوئی علامت نہیں دیکھی ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکیوں نے ’پی کے کے‘ کی وجہ سے ترکی کی مدد کرنا بند کر دی ہے۔
’’ترکی کیا کہہ رہا ہے تو دیکھیں ’پی وائی ڈی‘ شام میں ’پی کے کے‘ کی ایک شاخ ہے۔ تو آپ کو ان کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اس دلیل کو امریکی بار بار اور بہت استقامت کےساتھ مسترد کر چکے ہیں۔ تو کیا وہ یہ کھیل جاری رکھ سکتے ہیں ؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ میر ا خیال ہے کہ جب بائیڈن یہاں آئیں گے تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔ ‘‘
انقرہ ’پی وائی ڈی‘ پریہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہترک سرحد پر ایک آزاد مملکت کی تشکیل کی کوششکر رہا ہے، جس سے اسے ڈر ہے کہ ترکی کی خود اپنی شورش زدہ کرد اقلیت کوتحریک ملےگی۔ اب جب کہ امریکہ اور برطانیہ کی خصوصی فورسز کے بارے میں خیال ہے کہ وہشامی کرد فورسز کےدرمیان مشیر کے طو ر پر موجود ہیں ، امکان یہ ہے کہ واشنگٹن بڑھتی ہوئی کشیدگیاں کم کرنے کی کوشش کرے گا۔
جو بائیڈن کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب انقرہ تہران اور ماسکو تک رسائی کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ المانیٹر ویب سائٹ کے ترک سیاسی کالم نگار سمیع ایڈلیز کہتے ہیں کہ ترک سفارت کاری کا مقصد صرف اور صرف کردوں کی امنگوں اور آرزؤوں کی تکمیل میں رخنہ اندازی ہی ہے ۔
’’ اگر واشنگٹن اور ماسکو اور تہران کے ساتھ ترکی کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور انہیں ایران کی جانب سے شمالی شام میں کرد علاقے کی ناپسندیدگی کے عوامل سے تقویت ملتی ہے، تو کردوں کا اثر و رسوخ ماند پڑنا شروع ہو جائے گا۔ ‘‘
ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ اپنی مجوزہ ملاقات کے دوران مسٹر بائیڈن کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ انہیں اس حوالے سے سخت دباؤ کا سامنا ہو گا کہواشنگٹن شامی کرد فورسز کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ د ے۔
مبصرین کا دعوی ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ انہیں جہادیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے سب سے موثر فورس سمجھا گیا ہے، خاص طور پر اب جب کہ داعش کے خود اعلان کردہ دار الحکومترقہ پر قبضے کے لیے ایک اہم جنگ کا خطرہ موجود ہے ۔