صدر جو بائیڈن نے، جو بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر گزشتہ روز برطانیہ پہنچے ہیں، جمعرات کو برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات دنیا کی سات طاقت ور معیشتوں کے گروپ جی سیون کے سربراہ اجلاس سے ایک روز قبل ہوئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات دونوں سربراہان کے لیے ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے بعد ایک درمیانی سائز کے ملک کے اس کردار پر نظر ڈالنے کا موقعہ ہے، جو عالمی سطح کے مسائل حل کرنے میں ادا کر رہا ہے۔
اس ملاقات میں صدر بائیڈن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے از راہ مذاق کہا کہ میں نے وزیر اعظم جانسن سے کہا ہے کہ ہم میں ایک چیز مشترک ہے اور یہ کہ ہم دونوں کی شادی خود سے بہتر خواتین سے ہوئی ہے۔
وزیراعظم نے اس کے جواب میں کہا کہ میں صدر سے اختلاف نہیں کرتا بلکہ کسی بھی چیز سے اختلاف نہیں کرتا۔
ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے نامہ نگاروں سے کہا کہ یہ ملاقات اس چیز کا اعادہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خصوصی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ ہم نے جمہوری اقدار کے تحفظ کے عہد کا اعادہ کیا ہے جو ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری کی مضبوط بنیاد ہے۔
وزیر اعظم جانس نے امریکہ کی نئی انتظامیہ کے بارے میں کہا کہ یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
دوسری جنگ عظیم سے برطانیہ اور امریکہ کے درمیان خصوصی تعلقات کی بنیاد مشترکہ زبان، باہمی مفادات، فوجی تعاون اور ثقافتی دوستی پر استوار ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ان خصوصی تعلقات میں صدر بائیڈن کے دورے سے مزید گرمجوشی آئے گی۔
ملکہ برطانیہ نے صدر بائیڈن کے اعزاز میں اتوار کی سہ پہر ونڈسر محل میں چائے کی دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ ملکہ برطانیہ سے ملاقات کرنے والے بائیڈن چوتھے امریکی صدر ہوں گے۔
جی سیون سربراہ اجلاس
جمعے گیارہ جون سے شروع ہونے والا 'جی سیون' اجلاس تین روز تک جاری رہے گا جس میں امریکہ سمیت فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور کینیڈا کے رہنما شرکت کریں گے۔
آسٹریلیا، بھارت، جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ کو بطور مہمان شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اجلاس کے ایجنڈے میں کرونا وبا سے متاثرہ عالمی معیشت کی بحالی، ماحولیاتی تبدیلی، ٹیکس اور روس و چین کی جانب سے ممکنہ چیلنجز شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن اپنے یورپی اتحادیوں کو یہ یقین دلائیں گے کہ امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی انتظامیہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کا عزم رکھتی ہے اور انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں امریکہ کے اپنے یورپی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی میں کمی آئی تھی جب کہ بائیڈن امریکہ کو عالمی منظرنامے پر قائدانہ کردار میں سامنے لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
صدر بائیڈں کا آٹھ روزہ دورہ مذکورہ معاملات کی جانب ان کے مستقبل کے سفر کی سمت کا تعین کرے گا۔
دورے کے اہداف
صدر بائیڈن کے واضح اہداف میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سفارتی اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے مغرب کو تیار کرنا، روس کو یورپی سرحدوں کے اندر مداخلت اور انٹرنیٹ پر ہیکنگ سے باز رکھنا اور جمہوریت کے فروغ کے ساتھ آمریت کا مقابلہ کرنا شامل ہیں۔
یورپ روانگی کے لیے ایئر فورس ون طیارے پر سوار ہونے سے قبل بائیڈن نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا دورہ چین اور روس کے رہنماؤں پر یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ امریکہ اور یورپ متحد ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا یہ دورہ مخصوص اقدامات یا معاہدوں کی نسبت دنیا کو یہ پیغام دینے کے لئے ہے کہ ان کی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی سمت سابقہ انتظامیہ سے مختلف ہے اور وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ چلنا چاہتی ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کہتے ہیں کہ یہ دورہ صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کے اس بنیادی مقصد کو آگے بڑھائے گا کہ اس دور کے سب سے بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا کی جمہوریتوں پر بھروسہ کرنا ہو گا۔
یورپ کے دورے میں کیا ہو گا؟
صدر بائیڈن کے دورہ برطانیہ میں وہاں تعینات امریکی فوجیوں سے خطاب کرنا اور برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن سے ملاقات کرنا شامل ہے ۔
جمعے کو جی سیون اجلاس کے موقع پر بائیڈن عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد وہ برسلز میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور یورپی یونین کے سربراہوں سے ملاقات بھی کریں گے۔
وسطی اور مشرقی یورپ کی یہ شدید خواہش ہے کہ امریکہ ان کی سیکیورٹی پر زیادہ توجہ دے۔ جرمنی یہ چاہتا ہے کہ ان کے ملک میں امریکی فورسز کی موجودگی برقرار رہے جب کہ فرانس کی سوچ مختلف ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فرانس چاہتا ہے کہ یورپی یونین کے ممالک دفاعی نوعیت کی اپنی حکمت عملی کی جانب آگے بڑھیں کیوں کہ اب امریکہ پر پہلے کی طرح اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
صدر بائیڈن جنیوا میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ بالمشافہ بات چیت میں صدر پوٹن پر اشتعال انگیز کارروائیاں روکنے پر زور دیں گے، جن میں امریکی کاروباروں پر روس میں موجود ہیکرز کے سائبر حملے، حزبِ اختلاف کے لیڈر الیکسی نوالنی کی جیل اور کریملن کی جانب سے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کوششیں شامل ہیں۔
صدر بائیڈن عالمی وبا کرونا وائرس کے مقابلے کے لیے اپنے یورپی اتحادیوں کی کوششوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان پر زور دیں گے کہ وہ چین کی جانب سے ابھرتے ہوئے اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے مقابلے کے لیے متحدہ حکمتِ عملی تیار کریں۔
صدر بائیڈن اپنے یورپی اتحادیوں بشمول آسٹریلیا سے یہ بھی کہیں گے کہ وہ گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کا زیادہ قوت سے مقابلہ کرنے کا وعدہ کریں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات
یورپی لیڈروں کے علاوہ صدر بائیڈن کی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ بھی بالمشافہ ملاقات طے ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوگی جب بعض امور پر دونوں ملکوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں، جس میں خاص طور پر آرمینیا کے باشندوں کی 20 ویں صدی میں خلافتِ عثمانیہ کے فوجیوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر ہلاکتیں شامل ہیں، جسے حال ہی میں امریکہ نے نسل کشی قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ ترکی کی جانب سے نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود جدید روسی ہتھیاروں کی خریداری بھی اختلاف کا ایک سبب ہے۔
صدر بائیڈن نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اپنے غیرملکی دورے کے متعلق لکھا ہے کہ عالمی بے یقینی کے اس لمحے میں، جب کہ دنیا اس صدی میں رونما ہونے والی وبا کا مقابلہ کر رہی ہے، اس دورے کا مقصد اپنے اتحادیوں، شراکت داروں اور جمہوریتوں کو امریکہ کے اس عزم کا اعادہ کرانا ہے کہ ہم اس نئے دور کے چیلنجز اور خطرات، دونوں کا مقابلہ کریں گے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات
صدر بائیڈن اپنے آٹھ روزہ یورپی دورے کا اختتام روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات کے ساتھ کریں گے۔ جس دوران امریکی اداروں اور کاروباروں پر روس کے اندر سے سائبر حملے، امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات، یورپ کی مشرقی سرحدوں پر روسی دباؤ اور روس کے اندر سیاسی مخالفین کو کچلنے کے امور زیر بحث آ سکتے ہیں۔
توقع ہے کہ صدر بائیڈن اپنے روسی ہم منصب پر زور دیں گے کہ وہ عالمی سطح پر مختلف انداز کی مداخلتوں سے باز رہیں۔