امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہاہے کہ ایران میں ایک نوجوان خاتون کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہروں نے انہیں حیران کر دیا ہے۔ انہوں نے ایرانی خواتین سے امریکہ کی یکجہتی کا اظہار کیا۔
بائیڈن ایران میں بائیس سالہ مہسا امینی کی گزشتہ ماہ ہلاکت کے بعد جاری احتجاج کی سب سے بڑی لہر پر کیلیفورنیا کے ایک کالج میں " آزاد ایران" کے نشانات تھامے مظاہرین سے خطاب کر رہے تھے۔
بائیڈن نے لاس اینجلس کے قریب اروائن میں امریکی خاندانوں کے لیے اخراجات کم کرنے سے متعلق تقریر سے قبل ایرانی مظاہروں کے بارے میں مختصراً بات کی۔
اس موقع پر انہو ں نے کہا، "میں چاہتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ ہم شہریوں اور ایران کی بہادر خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں۔"
خبر رساں ادارے "اے ایف پی" کے مطابق بائیڈن نے مزید کہا کہ اس واقعے سے ایران میں سامنے آنے والی بیداری نے انہیں حیران کر دیا۔" اس نے ایک ایسی چیز کو جگایا جس کے بارے میں مجھے نہیں لگتا کہ اسے طویل عرصے تک خاموش کیا جاسکے گا۔""
صدر بائیڈن نے لاس اینجلس کے قریب ایرانی نژاد لوگوں کی بڑی آبادی کے شہر اروین میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں خواتین کو مختلف طریقوں سے دبایا جا رہا ہے لیکن انہیں وہی لباس پہننا چاہیے جو وہ پہننا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ا ایران کو اپنے ہی شہریوں پر بنیادی حقوق کا استعمال کر نے کی پاداش میں کیا جانے والا تشدد ختم کرنا ہوگا۔ ایرانی کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا، "میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے آواز اٹھائی۔
اس سے قبل جمعے کو واشنگٹن ڈی سی میں نائب صدر کاملا ہیرس، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے انسانی حقوق کارکنوں سے ملاقات کی تھی۔
نائب صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ ہیرس نے "ایران میں مساوی حقوق اور بنیادی انسانی وقار کے تحفظ کے لیے پرامن احتجاج کی قیادت کرنے والی بہادر خواتین اور لڑکیوں کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔"
وزیر خارجہ بلنکن نے بیرون ملک مقیم ایرانیوں کو سننے کے لیے ایک گول میز گفتگو کی قیادت کی جس میں نازنین بونیادی، ایک ایرانی نژاد اداکارہ اور انسانی حقوق کی وکیل اور مصنفہ رویا ہاکاکیان اور صنفی مساوات کی کارکن شیری حکیمی شامل تھیں۔
ادھر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے، جو ایک سخت گیر عالم ہیں، امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مظاہروں کو ہوا دے رہا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ انہیں اسی طرح کے الزامات کی توقع تھی کہ یہ کہا جائے گا کہ ان کی ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں ہونے والے احتجاج کی ڈور بیرون ملک سے ہلائی جا رہی ہے۔
اپنے نقطے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایرانی قیادت کے بارے میں کہا، "اگر ایسا ہے تو، اگر وہ حقیقی طور پر اس پر(الزامات پر) یقین رکھتے ہیں، تو وہ بنیادی طور پر اپنے لوگوں کو نہیں سمجھتے"۔
گفتگو کے آغاز میں بلنکن نے مہسا امینی کی موت اور اس سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے بے ساختہ مظاہرے کے تناظر میں نوٹ کیا، "ہم پورے ملک میں ایک ایسی چیز دیکھ رہے ہیں جو قابل ذکر ہے، جس کی قیادت بنیادی طور پر خواتین اور نوجوان کر رہے ہیں۔"
اس ملاقات میں نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین ، جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں اور راب میلے بھی ، جو ایران کے کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی تجدیدپر بات چیت لیڈ کرتے ہیں، بلنکن کے ہمراہ شریک ہوئے۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں قائم گروپ "ایران ہیومن رائٹس" کے مطابق 16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ایرانی حکام کی جانب سے ان مظاہروں کو "بے لگام وحشیانہ کریک ڈاؤن" سے دبانے کی کوشش کے باوجود یہ مظاہرے جاری ہیں۔ کریک ڈاون میں "مظاہروں میں شریک بچوں کے خلاف حملے بھی شامل ہیں اور اس کے نتیجے میں کم از کم 23 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔
( اس خبر میں شامل مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)