ویب ڈیسک۔ ایران میں مہسا امینی کی پولیس کسٹڈی میں ہلاکت کے بعد جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک فنکار نے ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کی عکاسی کرنے کے لیے جمعے کو تہران میں فواروں سے پھوٹتے پانی کو سرخ کر دیا۔
16 ستمبر کو تہران میں خواتین کےلباس کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کے سخت ڈریس کوڈ کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں 22 سالہ کرد خاتون کی گرفتاری کے بعد ان کی موت کے اعلان کے بعد سے ایران میں بدامنی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
خون کے سرخ فواروں کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن شیئر کی گئی ہیں۔
ان تصویروں میں دکھائے گئے فوارے تہران کے مرکز میں اسٹوڈنٹ پارک، فاطمی اسکوائر اور آرٹسٹ پارک میں واقع ہیں -
امینی کی موت پر شدید برہمی نے تقریباً تین سال میں مظاہروں کی سب سے بڑی لہر کو جنم دیا جس نے ایران کو ہلادیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں گرفتار ہوئے ہیں۔
ٹوئٹر پرسر گرم کارکنوں نے ان سرخ فواروں کو "فن پارے" سے تعبیر کرتے ہوئے اسے عنوان دیا " خون میں ڈھکا ہوا تہران "۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک گمنام فنکار کی تخلیق ہے۔
بی بی سی کی فارسی سروس نے کہا کہ بعد میں پانی نکال دیا گیا تھا، تاہم انسٹاگرام پر شائع ہونے والی تصاویر میں اب بھی فوارے پر سرخ رنگ کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے تصدیق شدہ آن لائن ویڈیوز کے مطابق، سیکورٹی فورسز کی جانب سے انہیں کچلنے کے لیے مہلک طاقت کے استعمال کے باوجود، احتجاج مسلسل 20 دن اور راتوں سے جاری ہے۔
اوسلو میں قائم تنظیم ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاؤن میں، جس میں انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو بلاک کرنے سمیت، انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں، اب تک کم از کم 92 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایرانی سیکورٹی فورسز نے تحریک کے حامیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کی کاروائیاں کی ہیں، جن میں سرگرم کارکن، صحافی اور پاپ اسٹار شامل ہیں۔
ان اقدامات کے باوجود ملک بھر کے قصبوں اور شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔
جمعرات کو آن لائن پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، جس کی تصدیق اے ایف پی نے کی ہے، نوجوان خواتین کے ایک گروپ کو شمالی شہر رشت میں" آمرمردہ باد " کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور دیگر تصدیق شدہ فوٹیج میں خواتین کو "آزادی" کے نعرے لگاتے ہوئے قدس شہر کی ایک سڑک پر مارچ کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 52 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، لیکن اس کا خیال ہے کہ "حقیقی ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔"
ایک ہفتہ قبل جاری کردہ ایک بیان میں لندن میں مقیم حقوق کے علمبردار گروپ نے کہا تھا کہ ایران جان بوجھ کر خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے ہلاکت خیز طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔
گروپ نے کہا کہ اس نے 21 ستمبر کو تمام صوبوں میں مسلح افواج کے کمانڈروں کو جاری کردہ ایک لیک ہونے والی دستاویز حاصل کی ہے جس میں انہیں مظاہرین کا "سختی سے مقابلہ" کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(یہ رپورٹ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اسٹوری پر مبنی ہے۔)