واشنگٹن —
ایک نئی تحقیق کے مطابق ایسے معمر افراد جو بچپن سے دو زبانیں بولتے آئے ہیں، ان کی ذہنی استعداد اپنی عمر کے ان ساتھیوں سے قدرے زیادہ ہوتی ہے جو صرف ایک زبان بول سکتے ہیں۔
ماضی میں اس طرز کے جائزوں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ دو زبانیں بولنا ذہن کی نشونما کے لیےاچھا ہے اور یہ ذہنی استعداد کو بڑھاتا ہے۔
یہ نئی تحقیق ایک موٴقر سائنسی جریدے ’نیوروسائنس‘ میں شائع ہوئی ہے اور اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے معمر افراد جو بچپن سے دو زبانیں بولتے آئے ہوں، وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی نسبت علمی لحاظ سے زیادہ چست ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں شامل بزرگ افراد کو تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا گروپ دو زبانیں بولنے والے معمر افراد پر مشتمل تھا، دوسرے گروپ میں ایک زبان جاننےوالے بزرگ تھے، جبکہ تیسرا گروپ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔
ان تینوں گروپوں کو رنگ اور مختلف اشکال کو ایک خاص تسلسل سے رکھنے جیسی ذہنی مشقیں کرنے کی تاکید کی گئی۔ بعد میں تحقیق دانوں نے مشینوں کے ذریعے انسانی ذہن کی تصویروں جسے brain imaging technique کہا جاتا ہے، کی مدد سے اس بات کا تعین کیا کہ تینوں گروپوں میں موجود افراد نے کس طرح مختلف ذہنی مشقیں مکمل کیں اور کس انداز میں وہ ایک مشق ختم کرکے دوسری مشق شروع کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف کنٹیکی کالج آف میڈیسن سے منسلک نیورو سائنٹسٹ برائن گولڈ اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا ہے کہ نتائج کے مطابق ان مشقوں کے دوران ذہن کے سامنے والے حصے میں زیادہ سرگرمی دیکھی گئی۔ ان کے الفاظ میں، ’ہم نے یہ دیکھا کہ جو معمر افراد دو زبانیں بولتے ہیں انکا ذہن نوجوانوں کی طرح کام کرتا ہے۔ انہیں ذہنی کاموں کے لیے اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا۔‘
برائن گولڈ کہتے ہیں کہ اسی حوالے سے ایک تحقیق کچھ عرصہ پہلے یادداشت سے متعلق ایک مرض ’الزائمرز‘ کے مریضوں پر بھی کی گئی تھی۔
اُس کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے مریض جو دو زبانیں جانتے تھے اور بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، ان مریضوں کی طرح سرگرمیاں انجام دے رہے تھے جو الزائمرز سے قدرے کم متاثر تھے۔ برائن گولڈ کے الفاظ میں، ’اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دو زبانیں جاننے والے معمر افراد ’الزائمرز‘ سے بہتر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔‘
برائن گولڈ کے مطابق اس تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ دو زبانیں جاننے سے آپ کا ذہن زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
ماضی میں اس طرز کے جائزوں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ دو زبانیں بولنا ذہن کی نشونما کے لیےاچھا ہے اور یہ ذہنی استعداد کو بڑھاتا ہے۔
یہ نئی تحقیق ایک موٴقر سائنسی جریدے ’نیوروسائنس‘ میں شائع ہوئی ہے اور اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے معمر افراد جو بچپن سے دو زبانیں بولتے آئے ہوں، وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی نسبت علمی لحاظ سے زیادہ چست ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں شامل بزرگ افراد کو تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا گروپ دو زبانیں بولنے والے معمر افراد پر مشتمل تھا، دوسرے گروپ میں ایک زبان جاننےوالے بزرگ تھے، جبکہ تیسرا گروپ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔
ان تینوں گروپوں کو رنگ اور مختلف اشکال کو ایک خاص تسلسل سے رکھنے جیسی ذہنی مشقیں کرنے کی تاکید کی گئی۔ بعد میں تحقیق دانوں نے مشینوں کے ذریعے انسانی ذہن کی تصویروں جسے brain imaging technique کہا جاتا ہے، کی مدد سے اس بات کا تعین کیا کہ تینوں گروپوں میں موجود افراد نے کس طرح مختلف ذہنی مشقیں مکمل کیں اور کس انداز میں وہ ایک مشق ختم کرکے دوسری مشق شروع کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف کنٹیکی کالج آف میڈیسن سے منسلک نیورو سائنٹسٹ برائن گولڈ اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا ہے کہ نتائج کے مطابق ان مشقوں کے دوران ذہن کے سامنے والے حصے میں زیادہ سرگرمی دیکھی گئی۔ ان کے الفاظ میں، ’ہم نے یہ دیکھا کہ جو معمر افراد دو زبانیں بولتے ہیں انکا ذہن نوجوانوں کی طرح کام کرتا ہے۔ انہیں ذہنی کاموں کے لیے اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا۔‘
برائن گولڈ کہتے ہیں کہ اسی حوالے سے ایک تحقیق کچھ عرصہ پہلے یادداشت سے متعلق ایک مرض ’الزائمرز‘ کے مریضوں پر بھی کی گئی تھی۔
اُس کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے مریض جو دو زبانیں جانتے تھے اور بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، ان مریضوں کی طرح سرگرمیاں انجام دے رہے تھے جو الزائمرز سے قدرے کم متاثر تھے۔ برائن گولڈ کے الفاظ میں، ’اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دو زبانیں جاننے والے معمر افراد ’الزائمرز‘ سے بہتر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔‘
برائن گولڈ کے مطابق اس تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ دو زبانیں جاننے سے آپ کا ذہن زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔