|
سندھ ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق جامعہ کراچی کی 'ان فیئرمینز' کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
جامعہ کراچی سینڈیکیٹ نے 31 اگست کے اجلاس میں طالب علم طارق محمود کی ڈگری منسوخ کی تھی جو یونیورسٹی نے 1991 میں جاری کی تھی۔
جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ کی کارروائی کے خلاف ایڈووکیٹ عارف اللہ خان اور محمد طاہر شبیر ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس امجد علی سہتو پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کو درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جامعہ کراچی کی 'ان فیئر مینز' کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے یونیورسٹی کو اس ضمن میں مزید اقدامات سے بھی روک دیا ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کراچی یونیورسٹی کی 'ان فیئر مینز' کمیٹی اور سینڈیکیٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری غیر مؤثر قرار دی تھی۔ یہ فیصلہ غیر شفاف طریقے سے کیا گیا ہے۔
جس پر جسٹس صلاح الدین نے استفسار کیا کہ جس ڈگری پر سوال اٹھایا جا رہا ہے وہ کس کی ہے، کب جاری ہوئی اور یونیورسٹی اب تک اس قسم کے کتنے فیصلے کر چکی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ 30 سال پرانی ڈگری کا معاملہ ہے۔
جسٹس امجد علی سہتو نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟
جس پر وکیل نے بتایا کہ درخواست وکلا نے دائر کی ہے جن کا مؤقف ہے کہ جج کے خلاف صرف جوڈیشل کمیشن ہی کارروائی کر سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود جسٹس طارق محمود کی پروفائل کے مطابق اُنہوں نے قانون کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ اسلامیہ لا کالج سے 1991 میں حاصل کی۔
واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز میں شامل تھے جنہوں نے رواں برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ خط لکھ کر عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی مداخلت کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔
عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت سے متعلق ججز کے خط کے بعد جامعۂ کراچی میں ایک شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں آئین کے آرٹیکل 19 اور سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلیمی ریکارڈ حاصل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
جامعۂ کراچی کی سینیڈیکٹ کا ایک اجلاس گزشتہ ہفتے ہوا تھا جس کے بعد یونیورسٹی کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں 'ان فیئر مینز کمیٹی' کی سفارشات کی روشنی میں کئی طلبہ کی ڈگریوں اور انرولمنٹ کی منسوخی کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ منسوخ ہونے والی ڈگریوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری بھی شامل ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے جج کی ڈگری سے متعلق جامعہ کراچی کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دلائل میں کہا کہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے ایک رکن کو پولیس آٹھ گھنٹے کے لیے اٹھا کر لے گئی تھی جس پر امجد علی سہتو نے وکیل سے کہا کہ وہ عدالت میں سیاسی باتیں نہ کریں۔
جسٹس سہتو نے کہا کہ اگر کسی کی ڈگری آپ کینسل کررہے ہیں تو اسے نوٹس دے کر بلانا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن میں کوئی بھی درخواست دی جاسکتی ہے وہ ڈگری چیک کرا لیتے۔
عدالت نے جج کی ڈگری منسوخی کے خلاف دائر درخواست پر ڈپٹی اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے تین ہفتوں میں تفصیلی جواب طلب کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری یا عدالتی حکام کی جانب سے اس معاملے پر اب تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔