|
اسلام آباد _ پاکستان کی پارلیمان میں رواں ہفتے کے دوران سپریم کورٹ سے متعلق مجموعی طور چار بل پیش کیے گئے ہیں جن میں دو آئینی ترامیم بھی شامل ہیں۔
پیر کو سینیٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے 21 کرنے کا بل پیش ہوا جسے سینیٹ کی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے جب کہ قومی اسمبلی میں بھی اسی طرح کا بل حکومتی رکن کی جانب سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وزیرِ قانون کی استدعا پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اس پر کارروائی مؤخر کر دی۔
ان دو بلوں کے علاوہ قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے معاملے اور توہینِ عدالت کو ختم کرنے کی آئینی ترامیم بھی پیش کی گئی ہیں۔
ملک کی اعلیٰ عدالت سے متعلق پارلیمان میں قانون سازی پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے بل کا مقصد اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنا دکھائی دیتا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ منصوبہ بندی قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے سخت نتائج یا اثرات کو سامنے رکھ کی جا رہی ہے۔
دو ماہ قبل جولائی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دیا تھا۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پارلیمان میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے بجائے دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد پر آئینی ترمیم کے حوالے سے تجزیہ کار اور اینکر پرسن منیزے جہانگیر کہتی ہیں اصولی طور پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن بل پیش کرنے کا وقت اور نظر آنے والے ارادے سوالات پیدا کر رہے ہیں۔
پارلیمان میں ججوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق پیش ہونے والے بلوں پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے بل کی ساری کارروائی کا مقصد اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر کیسز کے التوا کا معاملہ ہوتا تو لاہور ہائی کورٹ میں 24 سے 25 ججوں کی خالی نشستوں پر جج لگائے جاتے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی ججوں کی خالی نشستوں کی تعداد 11 سے 12 ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ہائی کورٹس میں بھی ججوں کی خالی پوسٹوں پر تعیناتی ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ خیال درست ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے بل پیش کرنے والے اراکین کو بس ڈرافٹ تیار کر کے دے دیا گیا ہو۔ تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس نے یہ بل اراکین کو تیار کر کے دیے ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 21 کرنے کا بل
پیر کو سینیٹ میں بلوچستان سے آزاد سینیٹر عبد القادر نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 21 کرنے کا بل پیش کیا تھا۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس بل کے حق میں دلائل پیش کر کے حکومتی حمایت کا اشارہ دیا لیکن اپوزیشن نے اس بل کی سخت مخالفت کی۔
بل کے بارے میں سینیٹر عبد القادر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 53 ہزار سے زیادہ کیسز زیرِ التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں آئینی معاملات آ رہے ہیں جس کے لیے لارجر بینچ بن جاتے ہیں اور جج آئینی معاملات دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
بل حق میں دلائل میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئین بنانے والوں نے ججوں کی تعداد آئین میں متعین نہیں کی تھی۔ پارلیمان کے ارکان کو قانون سازی کے تحت ججوں کی تعداد کا تعین کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کی تعداد بڑھانے کا یہ بل اچانک پیش کیا گیا ہے۔ اگر ججوں کی تعداد بڑھانی ہے تو پہلے چھوٹی عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کا بل لایا جاتا تو اس کی حمایت کرتے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کیا ہے تب سے ججوں کی تعداد بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔
منگل کو جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رکن دانیال چوہدری نے بل پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ تو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایوان میں آئینی اور قانونی نکات پیش کیے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی آبادی ایک ارب 45 کروڑ ہے مگر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 33 ہے۔
بعد ازاں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کو اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ اس بل کو پیش کرنے کا عمل مؤخر کر دیا جائے۔ بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اس بل کو مؤخر کر دیا۔
’ججوں کی تعداد کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟‘
طویل عرصے سے سپریم کورٹ میں کیسز کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں قانون کے ذریعے پارلیمان کو سپریم کورٹ میں ججوں کے تعداد میں اضافہ کرنے کا اختیار ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ اعلیٰ عدالت میں ججوں کی تعداد کیوں بڑھائی جا رہی ہے۔ اس سوال پر کئی منظرنامے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے کہا کہ ایک رائے یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ججوں کی تعداد بڑھانے اور قانون سازی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے سخت نتائج یا اثرات کو سامنے رکھ کر کی جا رہی ہو، جس کا ایک مقصد یہ پیغام دینا بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس بھی آپشن موجود ہیں۔
مطیع اللہ جان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قانون سازی کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے مکمل عمل درآمد نہ ہو، کچھ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے کر باقی نشستیں حکمران اتحاد کو دی جائیں۔ تو ظاہر ہے یہ معاملہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ میں جا سکتا ہے اس صورت میں سپریم کورٹ میں مقرر ہونے والے نئے ججوں کا کردار اہم ہوگا۔
ان کے بقول سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے بعد ایک سوال یہ بھی سامنے آ سکتا ہے کہ جو دو ایڈہاک جج سپریم کورٹ میں لگائے گئے ہیں۔ وہ جج بھی 21 ججوں کے علاوہ عہدے پر موجود رہ سکتے ہیں یا نہیں؟
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ لگ رہا ہے کہ حکومت نے ممکنہ صورتِ حال کے لیے ہوم ورک کر رکھا ہے۔
توہینِ عدالت آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا بل
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے رکنِ قومی اسمبلی نور عالم خان نے منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ججوں سے متعلق آئینی ترامیم کے دو بل پیش کیے جن میں توہینِ عدالت آرڈیننس 2003 کو منسوخ کرنے کا بھی بل شامل تھا۔
قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کے بل میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت کے لیے کم از کم نو ججوں پر مشتمل بینچ کی تشکیل، متاثرہ فریق کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے کا اختیار اور نظرِ ثانی کے لیے زیادہ بڑا بینچ بنانے کی تجاویز شامل تھیں۔
دوسری آئینی ترمیم کا بل ججوں کی دوہری شہریت پر پابندی کا تھا۔ بل کے پیش کرنے والے نور عالم خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں از خود نوٹس کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔
آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے درکار اراکین کی تعداد
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئینی ترامیم کا کوئی بھی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانا ہوگا ۔ آئینی ترامیم کا بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور نہیں ہوسکتا۔
سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
حکومتی اتحاد کے پاس سینیٹ میں اس وقت 55 ارکان ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے 19، پیپلز پارٹی کے 24، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین شامل ہیں۔
مبصرین کے مطابق حکومت آئینی ترمیم کے لیے اے این پی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر بھی دوتہائی اکثریت کے لیے درکار ارکان کی تعداد میں چار کم ہوں گے۔ ان کے بقول سینیٹ میں اگر جے یو آئی (ف) بھی حکومت کی حمایت کرے تب حکمران اتحاد کے پاس سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ہوگی۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار ہے اور حکمران اتحاد کے ارکان کی مجموعی تعداد 212 ہے۔
قومی اسمبلی میں حکومت اگر جے یو آئی سے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے پھر بھی حکومت کو دو تہائی اکثریت کے لیے درکار تعداد پوری کرنے کے لیے مزید چار ارکین کی حمایت درکار ہو گی۔
مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی کے آزاد ارکان اگر آئینی ترامیم کی حمایت کریں تو قومی اسمبلی میں درکار ارکان کی تعداد پوری ہو جائے گی۔
کچھ قانونی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے فیصلے کی روشنی میں تحریکِ انصاف کی حمایت سے منتخب اراکین قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی میں شمولیت کی تحریری طور پر تصدیق کر چکے ہیں۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان سے ووٹ لینا بھی مشکل ہوگا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اگر کسی رکن نے پارٹی لیڈر کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا تو وہ ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔