ارب پتی لوگوں کا کلب پھل پھول رہا ہے۔ فوربس میگزین کی سالانہ فہرست سے پتا چلتا ہے کہ اِس وقت دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد 1210ہے، یعنی گذشتہ سال کے مقابلےمیں اِس سال 199کا اضافہ ہوا ہے۔
حالانکہ دنیا کےتین دولتمندترین اشخاص وہی ہیں جو پچھلے برس تھے۔ اُن کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اِس فہرست میں داخل ہونے والے نئے حضرات کا تعلق نہ تو امریکہ سے نہ ہی یورپ سے، بلکہ روس اور ایشیا پسیفک سے ہے۔
فوربس میگزین کی تیار کردہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست سےعالمی معیشت میں نمایاں تبدیلیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
میگزین کے چیرمین اسٹیو فوربس کہتے ہیں کہ اِس سال جِن 200نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے اُن کا تعلق برازیل، روس، بھارت اور چین سے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ جہاں تک ایشیا پیسفک کا تعلق ہے ارب پتیوں کی تعداد میں تقریباً 40فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ روس میں 62ارب پتی تھے جوبڑھ کراب101 ہوگئے ہیں، جب کہ برازیل میں 18 ارب پتی تھے جِن کی تعداد اب 30ہو چکی ہے۔ اِس سےنہ صرف عالمی معیشت میں توانائی بخش عنصرکی موجودگی کا پتا چلتاہے بلکہ یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہےکہ اِن اشخاص کا تعلق امریکہ اورمغربی یورپ سے نہیں ہے۔
اوپر کی سطح پر امیر ترین اشخاص کی تعداد وہی ہے۔ میکسیکو کی میڈیا کے بے تاج بادشاہ، کارلوس سِلم اب بھی امیر ترین فرد ہیں جن کے پاس 74بلین ڈالر کی ملکیت ہے۔
مائکروسافٹ کے بانی، بِل گیٹس نے ایک فلاحی ادارے کو 28بلین ڈالر دے دیے ہیں اور اب وہ 53بلین ڈالر کے مالک ہیں اور اِس طرح دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔
سرمایہ کار، وارن بوفے گذشتہ سال 47بلین ڈالر کے مالک تھے، اِس سال اُن کی ملکیت بڑھ کر 50بلین ڈالر ہوگئی ہے اور اِس طرح وہ تیسرے امیر ترین شخص ہیں۔
تاہم، روسی سماجی میڈیا کے ارب پتی یوری ملِنراپنے ملک میں سب سے آگے ہیں۔ اُن کے آبائی شہر ماسکو میں 79ارب پتی بستے ہیں۔ ایک ہی شہر میں اتنے امیر ترین لوگوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
لیکن اب بھی، کسی ملک میں سب سے زیادہ ارب پتی اشخاص امریکہ میں رہتے ہیں، تاہم دولت کا فرق گھٹتا جا رہا ہے۔
چین میں نئے ارب پتیوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ روبن لِی، سرچ انجن ’بیدو‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ چین کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، جِن کی دولت کی مالیت نو بلین ڈالر ہے۔ فوربس کے ایڈیٹر رَسل فلینی نے کہا ہے کہ لِی کی کامیابی کا سہرا چین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے سر ہے۔
رسل فلینی کے مطابق جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ دراصل چین میں عشروں سے جاری کامیاب معاشی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ اب نجی کمپنیوں کو بہت زیادہ قانونی تحفظ حاصل ہو رہا ہے، اُسے مالیاتی شعبے کی طرف سے پہلے سے کہیں زیادہ حمایت مل رہی ہے۔
تاہم چینی صارفین کا کہنا ہے کہ متوسط طبقے کی مدد کےلیے حکومت کی طرف سےابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔
معلوم کرنے پر ایک چینی شخص نے کہا کہ یہ اچھی خبر تو ہے کہ چین میں امیروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ غریب امیرکا فرق بڑھ رہاہے، اِس لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت عام آدمی کی حالت کو مزید بہتر بنائے۔ ’کرنے کا کام تو یہی ہے۔‘
بات یہ ہے کہ صرف چین کے لوگ ہی نہیں جنھیں آمدنی کے فرق پر پریشانی لاحق ہے، امریکہ میں 10فی صد اشخاص ملک کی تقریباً 38فی صد ملکیت کے مالک ہیں۔
تاہم، فوربس بتاتے ہیں کہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ۔
فوربس میڈیا کے چیرمین، اسٹیو فوربس کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو جواہرات کے ڈھیر پہ بیٹھے ہوئے ہوں۔ اصل میں وہ کاروبارتشکیل شروع کرتے ہیں اور اگر کوئی کاروبار اِس قابل نہ ہو کہ صارفین کو متوجہ کرسکے تو اُس کا نقصان سبھی کو ہوتا ہے۔
باوجود اِس بات کے کہ کساد بازاری متعدد لوگوں کےلیے پریشانی کا باعث ہے، دنیا کے ارب پتیوں کی دولت کی ریل پیل میں 25فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اُن کی اصل کمائی کا اوسط بڑھ کر اب 3.7بلین ڈالر ہوچکا ہے جو گذشتہ سال 3.5بلین ڈالر کی سطح پر تھا۔