رسائی کے لنکس

ایبٹ آباد چھاپے کے دوران برآمد ہونے والی وستاویزات جاری


ایک خط میں اسامہ بن لادن نے تحریر کیا: 'خط و کتابت کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال توجہ طلب معاملہ ہے۔ عام پیغامات کے لیے تو یہ ٹھیک ہے، لیکن مجاہدین کی رازداری کا تقاضا اِس کی اجازت نہیں دیتا، جس کے لیے خاص پیغام رساں کی خدمات لینا ہی واحد طریقہ ہے'

حکومت امریکہ نے بدھ کو درجنوں دستاویزات جاری کی ہیں، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سنہ 2011 میں ایبٹ آباد کے مکان پر چھاپے کے دوران برآمد کی گئیں، جہاں امریکی فوج نے القاعدہ کے لیڈر، اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔

ایک بیان میں، 'نیشنل انٹیلی جنس' کے سربراہ کے دفتر نے کہا ہے کہ اِن دستاویزات کو جاری کرنے سے پہلے امریکی حکومت کے مختلف اداروں نے ان کا 'سختی سے' جائزہ لیا۔ جائرہ لینے کے مرحلے میں وہ حلقے بھی شامل تھے جو 'قومی سلامتی کے منصب اور استحقاق کو مدنظر رکھتے ہوئے، صدر کی جانب سے اضافی شفافیت کے معیار کو یقینی بنانے کے کام پر عمل پیرا تھے'۔

اس میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2014 کی انٹیلی جنس سے متعلق قانون سازی کی پاسداری کے تقاضے پورے کیے گئے، جن کی رو سے دستاویز جاری کرنے سے قبل اِس دفتر کی جانب سے اُن کا جائزہ لینا لازم خیال کیا جاتا ہے۔

جاری کیے گئے مواد میں کئی قسم کی 'ڈی کلاسیفائیڈ' دستاویز، اہل خانہ کو تحریر کیے گئے ذاتی خطوط ، مکان سے برآمد ہونے والی انگریزی زبان کی کتابوں کی فہرست، تھنک ٹینک کی مطالعاتی رپورٹیں، سافٹ ویئر اور دیگر تکنیکی رسائل اور دیگر شدت پسند گروہوں کی جانب سے شائع کردہ مواد شامل ہے۔

آخری برسوں کے دوران، بن لادن کے کھرے پن پر مبنی اندازوں کا پتا چلتا ہے، جب اُنھوں نے یہ تحریر کیا کہ اُن کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو ٹکنالوجی کے میدان میں بہت آگے ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کو تفصیلی ہدایات جاری کیا کرتے تھے کہ اگر امریکی ایجنٹ کوشش کریں تو اُن کو اُن تک رسائی نہ دینے کا کیا طریقہ کار اپنایا جانا چاہیئے۔

بدھ کے روز پوشیدہ نہ رہنے والے ایک خط میں، جسے 'سی آئی اے' نے فرانسیسی خبر رساں ادارے، 'اے ایف پی' کو فراہم کیا، جس کی آزادانہ طور پر توثیق یا تصدیق نہیں کی جاسکتی، بن لادن نے ایران کے سفر پر اپنی ایک بیوی کو محتاط رہنے کا انتباہ جاری کیا تھا، کیونکہ 'اب خفیہ سُن گُن لینے والے چھوٹے چپس بن چکے ہیں، اتنے باریک کہ وہ آسانی کے ساتھ ایک سرنج کے اندر سما سکتے ہیں۔ 'اُنھوں نے یہ خط ستمبر، 2010ء میں تحریر کیا تھا۔ اس خط کا ترجمہ خود 'سی آئی اے' نے کیا ہے۔

بن لادن نے اُنھیں بتایا کہ 'سب چیزیں پیچھے چھوڑ دو'، کیونکہ 'ایرانیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ عین ممکن ہے کہ جس سامان کو آپ اہنے ہمراہ لائی ہو اُس میں کوئی ایسا چپ نصب نہ کر دیا گیا ہو'۔

یہ خط اُن بیسیوں چیزو ں میں سے ایک ہے، جو دو مئی، 2011ء کو امریکی کمانڈوز کی جانب سے پاکستان کے شہر، ایبٹ آباد میں لادن کے گھر پر چھاپے کے دوران دیگر انٹیلی جنس مواد کے ساتھ برآمد ہوا، جس شہر میں پاکستانی فوج کی چھائونی ہے۔ اس چھاپے کے دوران بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔

دیگر خطوط میں، کبھی کبھار بن لادن اپنے اڑیل ساتھیوں کو وضاحت پیش کیا کرتے تھے کہ سکیورٹی کیوں اشد ضروری ہے، اُس وقت بھی جب عالمی جہاد کی کارروائی کو جاری رکھنا مشکل مرحلہ تھا۔

بقول اُن کے، 'خط و کتابت کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال توجہ طلب معاملہ ہے۔ عام پیغامات کے لیے تو یہ ٹھیک ہے، لیکن مجاہدین کی رازداری کا تقاضا اسکی اجازت نہیں دیتا، جس کے لیے خاص پیغام رساں کی خدمات لینا ہی واحد طریقہ باقی ہے'۔

عبد الرحمٰن القائدہ کے ایک کمانڈر تھے، جنھیں محمود اور بن لادن کا دست راست کہا جاتا تھا۔ وہ اس حد تک محتاط طریقہ کار پر ناخوش تھے۔

اپنے ایک خط میں آن لائن خبررسانی پر زور دیتے ہوئے، عبد الرحمٰن کہتے ہیں، 'یہ معاملہ بہت ہی گنجلک ہے۔ ہم الجیریا، عراق، یمن اور صومالیہ کے بھائیوں سے کس طرح رابطہ کر سکتے ہیں؟'

بقول اُن کے، کبھی کبھی، احتیاط برتتے ہوئے بھی، ہمارے پاس اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہے، ہم ایسا ہی کریں گے۔ البتہ، یہ ہے بہت ہی مشکل کام'۔

تاہم، اس موضوع پر، بن لادن انتہائی سخت روی کا مظاہرہ کرتے تھے۔

امریکی فوج نے بن لادن کو ہلاک کیا، جو اس شدت پسند تنظیم کے سربراہ تھے جس نے 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ پر دہشت گرد حملے کیے، جن میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیرمین، ڈیون نیونز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ، 'یہ بات عین امریکہ عوامی مفاد میں ہے کہ ہمارے شہری، دانشور، صحافی اور تاریخ داں وقت نکال کر بن لادن کی دستاویزات کو پڑھیں اور سمجھیں'۔

نیونز نے کہا کہ بدھ کو جاری کی جانے والی 86 نئی رپورٹوں کے بعد، ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی رپورٹیں کی مجموعی تعداد 120 ہو جاتی ہیں، جو، بقول اُن کے 'درست سمت ایک قدم ہے'۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ میں اس بات کا متمنی ہوں کہ یہ جاری کوششیں بارآور ثابت ہوں اور ایبٹ آباد سے متعلق سینکڑوں باقی رپورٹیں جلد ڈی کلاسیفائیڈ ہوں، تاکہ کانگریس کے ارکان کی ضرورت پوری کی جاسکے۔

XS
SM
MD
LG