رسائی کے لنکس

بچوں کو چھت سے نیچے پھینکنے کی انوکھی رسم


آج کی دنیا،اکیسویں صدی کے انتہائی جدید اوربرق رفتار زمانے سے تعبیر ہے۔۔۔مگر اسی دنیا کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے کئی معاشروں میں اب بھی صدیوں پرانی رسومات چلتی چلی آرہیں مثلاً جنوبی ایشیا ء اور خاص کر بھارتی و پاکستانی معاشروں میں ۔۔۔جہاں بہت سی عجیب اور انوکھی رسومات سالہا سال سے رائج ہیں ۔

بھارتی ریاست کرناٹک کی ایک رسم تواس قدر انوکھی ، دلچسپ اور عجیب و غریب ہے کہ اسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس رسم میں مندر کا بچاری تین مہینے سے 2سال تک کی عمرکے بچوں کو مندر کی چھت پر لیجاکر انہیں نیچے گرادیتا ہے ۔ پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے جبکہ بعض ماوٴں کے منہ سے چیخیں تک نکل جاتی ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک کے ضلع بگالکوٹ میں واقع قصبہ مدھول کے مروتھیشورامندر میں گزشتہ دنوں یعنی 7مئی کو بھی یہ رسم نہایت اہتمام سے منائی گئی۔ اس رسم کو مقامی زبان میں ”اوکالی “کہا جاتا ہے۔ مندر میں سینکڑوں لوگ اس رسم کو دیکھنے جمع ہوئے۔ درجن بھر والدین نے اپنے بچوں کو سجاسنوارکر باری باری پجاری کے حوالے کیا جو انہیں لیکر مندر کی چھت پر گئے اور ایک ایک کرکے بچوں کو ہوا میں اچھل کر نیچے پھینکنا شروع کردیا۔ نیچے علاقے بھر کے لوگ بڑی بڑی چادروں کو کناروں سے پکڑے کھڑے تھے جن پر بچے آآکر گرتے رہے۔

اس رسم کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بچوں کے والدین بذات خود ان بچوں کو پچاری کے حوالے کرتے ہیں۔ اس رسم کیساتھ ان کا ’عقیدہ ‘بہت گہرا ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ اس رسم کی ادائیگی کے بعد ان کے بچے صحتمندو توانا ہوجائیں گے اور ان کی تمام جسمانی بیماریاں دور ہوجائیں گی۔

اگرچہ اس رسم پر مسلسل تنقیدیں ہوتی چلی آئی ہیں لیکن پچاریوں اور عقیدت مندوں کی جانب سے اس کا دفاع کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہناہے کہ ان کا عقیدہ ’بے وجہ خوف‘ سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیوں سے چلی آرہی اس رسم کوترک کرنا گناہ‘ ہوگا ۔ یہ ان کی عبارت کا لازمی جز بن گئی ہے ۔ عبادت کا تعلق روح اور دل سے ہے ،اس لئے اس رسم کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔

حالیہ برسوں میں اس رسم کو منت کے طور پر بھی اپنالیا گیا ہے مثلا ً خاندان میں شادی یا بچے کی ولادت کے لئے لوگ اس رسم کی منت مان لیتے ہیں اورمنت پوری ہونے پر اس رسم کی ادائیگی لازمی ہوجاتی ہے۔ بے اولاد افراد اس رسم کے عقیدت مندوں کی فہرست میں پہلے جبکہ بیمار بچوں کے والدین دوسرے نمبر پرشمارہوتے ہیں۔

ان کے برعکس استدلال پسندوں کے نزدیک یہ رسم بے منطق ہے۔ انہیں حیرت ہے کہ انتظامیہ اس رسم کو ابھی تک ختم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکی ہے۔

بچوں کی زندہ تدفین
بھارت میں بعض رسمیں ایسی بھی ہیں جو کسی کے کہنے پرخصوصاًً جادو ٹونا کرنے والوں یا عاملوں کے کہنے پر اپنا لی جاتی ہیں۔

عامل افراد اکثر جادو کا توڑ کرنے یا خود کسی پر جادوکرنے کے خواہشمندوں کو یا لمبی بیماری سے نجات پانے کے خواہش مندوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنے کے لئے غیر فطری اور مشکل عمل بتاتے ہیں جس سے وہ خود تو بچ جاتے ہیں لیکن اکثر ان کا کہا ماننے والوں کو برے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

ایسا ہی واقعہ گزشتہ ہفتے بھی ہوا جب بھارتی ریاست اترپردیش کی پولیس نے عامل کے کہنے پر اپنی دو ماہ کی بچی کو زندہ دفنانے کی کوشش کرنے والے باپ اور بچی کے ماموں کو گرفتار کرلیا۔

واقعہ دہلی سے تقریباً ستر کلو میٹر دور پلکھوا علاقے میں پیش آیا ہے۔ پلکھوا تھانے کے ایک سینیئر پولیس اہلکارکے مطابق بچی کے والد اور ماموں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس بچی کو اس کے والد اور ماموں ایک جادو ٹونا کرنے والے عامل کے کہنے پر زندہ دفن کرنے جارہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے ان کے ہاں پیدا ہونے والے دوسرے بچے کی صحت بہتر ہوگی۔

اس خاندان میں ایک اور بچی ہے جو خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ یہ خاندان مزدوری کر کے اپنی گزر بسر کرتا ہے۔ رادھیکا نام کی دو ماہ کی اس بچی کو میرٹھ شہر کے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جادو ٹونا کرنے والے کا پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے جس کے کہنے پر یہ لوگ بچی کو زندہ درگور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران بچی کے والد دنیش اور والدہ بھارتی نے بتایا کہ وہ جادو ٹونا کرنے والے کی ہدایت پر ایسا کر رہے تھے اور بچی کے ماموں اس کام میں ان کی مدد کر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG