پاکستان میں سپریم کورٹ کی طرف سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے خلاف ماتحت عدالت کی طرف سے توہین رسالت کی سزا کے فیصلے کو منسوخ کئے جانے کے بعد توہین مذہب کا قانون ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قانون کے حوالے سے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی کوششیں کس حد تک متاثر ہوئی ہیں۔
پاکستان میں جب سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو 2010 میں دی گئی سزا منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا تو ملک بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔
مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ماتحت عدالت نے توہین مذہب کے جرم میں پھانسی کی سزا کا حکم دیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے اس فیصلے کو مسترد کرنے کے بعد مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے یہ فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے تینوں ججوں کے خلاف فتویٰ دیتے ہوئے انہیں واجب القتل قرار دے دیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس جماعت کے بیانات کی شدید مذمت کی۔ تاہم بعد میں حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ ایک تحریری سمجھوتہ طے کیا جس میں آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے سلسلے میں قانونی کارروائی کرنے کی شق بھی شامل تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس سمجھوتے کی شدید مذمت کی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے عمر وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’’جو بات حقیقت میں دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں ملزم کو بری کر دیا گیا کیونکہ اس کے خلاف الزامات جھوٹے تھے۔ یوں امتحان اس بات کا ہے کہ کیا حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل دآمد کر پاتی ہے اور ججوں اور آسیہ بی بی کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے؟‘‘
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمشن کا کہنا ہے کہ دنیا کے 71 ملکوں میں توہین مذہب کو مجرمانہ فعل قرار دیا گیا ہے اور 6 ممالک میں اس جرم میں موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔
کمشن کے گیری بوئر کے مطابق مشرق وسطیٰ میں یہ قوانین اس انداز میں نافذ کئے جاتے ہیں جن سے مذہبی اقلیتوں کی مذہبی آزادی مجروح ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کو لوگوں سے بدلہ لینے، انہیں ہراساں کرنے اور ان کے اظہار کی آزادی کے حق کو محدود کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
بوئر کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک مذہبی آزادی کی حمایت ختم کرنے کے لئے علاقائی سیکورٹی کے خدشات کو بہانہ نہیں بنا سکتے۔