سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہروں اور ہنگاموں کی بھرپور مذمت کی ہے۔
کراچی میں انسانی اور شہری حقوق کے لئے کام کرنے والے راہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ پرتشدد ہنگاموں پر تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف ملکی آئین سے غداری کے تحت مقدمات درج کیے جائیں اور بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ یہ مطالبہ عوامی مزاحمتی فورم کے پلیٹ فارم سے سامنے آیا ہے۔
توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے خلاف ملک کی سول سوسائٹی کی جانب سے یہ پہلی توانا آواز ہے۔
جبران ناصر اور سول سوسائٹی کے دیگر راہنماؤں نے پریس کانفرنس میں تحریک لبیک پاکستان کے 3 روزہ احتجاج کی پر زور مذمت کی اور کہا کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں آسیہ بی بی 9 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 31 اکتوبر کو آسیہ کو عدم شواہد کی بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سول سوسائٹی کے بقول تحریک لبیک کی قیادت نے اس رہائی پر عوام کو بغاوت پر اکسایا اور چیف جسٹس، سینیر ججوں, وزیر اعظم اور آرمی چیف کے قتل کے فتوے دیے۔
پیپلز ریززسٹنس فورم کے راہنماؤں کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کی جانب سے فوج کو بغاوت پر اکسانے, تشدد اور ریاست کے اعلیٰ عہدے داروں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی۔ راہنماؤں نے مزید کہا کہ ان بیانات کے بعد ملک بھر میں پرتشدد ہنگامے ہوئے, خوف و ہراس پھیلا, اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہوئے اور معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تحریک لبیک پاکستان کے راہنماؤں کے خلاف آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے علاوہ قتل اور ریاست سے بغاوت کے الگ الگ مقدمات درج کیے جائیں۔ جبکہ الیکشن کمشن آف پاکستان تحریک لبیک پر فوری پابندی عائد کرے۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ عوامی مزاحمتی فورم اسے عدلیہ, انتظامیہ, فوج اور عام شہریوں پر حملہ تصور کرتا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کا یہ عمل ریاست اور جمہوریت خلاف ہے۔ فورم نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے پرتشدد ہنگاموں اور احتجاج پر رد عمل کو بھی کمزور اور غیر مؤثر قرار دیا۔
فورم کے مطابق اگر ریاست قانون اور آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق کام نہیں کرے گی تو پھر دہشت گردوں کی منشاء کے مطابق لاقانونیت, نفرت, تشدد اور انارکی ہی پروان چڑھے گی۔ عوامی مزاحمتی فورم کی جانب سے پرتشدد ہنگاموں پر چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک لبیک ان پرتشدد ہنگاموں سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے۔ تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم رضوی کا موقف ہے کہ احتجاج ان کا بنیادی حق تھا اور ہے مگر پرتشدد احتجاج کی کوئی کال انہوں نے نہیں دی اور ایسے لوگوں کا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔
حکومت نے ان واقعات میں عوامی املاک کو نقصان پہنچانے، سڑکیں بند رکھنے اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔ اسلام آباد سمیت پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں پرتشدد کارروائیوں میں حصہ لینے کے الزام میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔