|
فیصل آباد پولیس نے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار شخص نشے کا عادی بتایا جاتا ہے جسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
مبینہ توہینِ مذہب کا واقعہ صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کے علاقے ڈِجکوٹ میں منگل کو پیش آیا۔
مقدمے میں توہینِ مذہب کی دفعہ 295 بی لگائی گئی ہے۔
مقدمے کے مطابق توہینِ مذہب کرنے والے شخص کی اطلاع ملزم کے بھائی نے بذریعہ فون پولیس ہیلپ لائن نمبر 15 پر دی جس کے بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی۔
پولیس کے مطابق ملزم پر قرآن کے صفحات نذرِ آتش کرنے کا الزام ہے۔
پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں تسلیم کیا ہے کہ وہ کچھ کاغذات کو آگ لگا رہا تھا، اُنہی کاغذوں کے ساتھ قرآن موجود تھا جس کو غلطی سے آگ لگ گئی۔
ترجمان فیصل آباد پولیس انسپکٹر شاہد ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور صورتِ حال کو کنٹرول کیا۔
انسپکٹر شاہد ملک کا کہنا تھا کہ ملزم نشے کا عادی ہے یا نہیں اِس بارے میں تمام معلومات اُن کا وکیل عدالت میں پیش کرے گا تاکہ عدالت اُس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگا سکے۔
اُن کے بقول ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
'بھائی نشے کا عادی اور ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے'
ملزم کے بھائی شاہد ندیم کہتے ہیں کہ اُن کے بھائی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اور وہ نشے کا عادی ہے جس کی وجہ سے اُن کی ملازمت بھی ختم ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد ندیم نے بتایا کہ اُن کا بھائی پنجاب پولیس میں کانسٹیبل تھا جہاں اس نے 17 برس ملازمت کی۔ اسی دوران وہ نشے کا عادی ہو گیا جس پر پولیس نے اسے نوکری سے نکال دیا۔
شاہد ندیم کا کہنا تھا کہ مسلسل نشہ کرنے کے باعث اُس کے بھائی کا ذہنی توازن بگڑا جس کی وجہ سے اُس کی نجی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اُس کی بیوی بھی الگ ہو گئی۔
کیا ذہنی مریض کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ مقدمہ تو کسی کے بھی خلاف درج ہو سکتا ہے تاہم دورانِ تفتیش ملزم کو اُس کی ذہنی حالت کے مطابق عدالت کارروائی کرے گی اور اُسے آزاد کرنے یا اُس کا علاج کرنے کا حکم دے گی۔
قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ شفیق بلوچ کہتے ہیں کہ کسی بھی ایسے کیس میں دو چیزیں دیکھی جاتیں ہیں۔ ایک مقدمہ کا درج ہونا اور دوسرا آیا وہ مقدمہ چل سکتا ہے یا نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر پولیس ایسے واقعات کی تفتیش کیے بغیر ہی مقدمہ درج کر لیتی ہے کیوں کہ مقدمہ درج کرتے وقت اُس واقعے کی تفتیش نہیں ہوتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مقدمہ ایک درخواست پر درج ہو جاتا ہے کیوں کہ عمومی طور پر ایسے واقعات کا مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد دورانِ تفتیش یہ ثابت ہو جائے کہ ملزم وقوعہ کے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا تو مقدمے کی کارروائی نہیں چلتی۔
قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سیف الملوک کے مطابق پاکستانی قوانین کریمنل پروسیجر 464، 465 اور 466 کے مطابق اگر عدالت یہ محسوس کرے یا ملزم کی جانب سے یہ درخواست آئے کہ ملزم ٹرائل کے لیے فِٹ نہیں ہے تو عدالت میڈیکل بورڈ تشکیل دے سکتی ہے۔
کیا ذہنی بیمار شخص کو سزا ہو سکتی ہے؟
قانونی ماہر شفیق بلوچ سمجھتے ہیں کہ دورانِ تفتیش توہینِ مذہب یا کسی بھی الزام میں ملوث شخص یہ ثابت کر دے کہ وقوعہ کے وقت اُس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی یا اُسے اپنے قول فعل کا علم نہیں تھا تو عموماً عدالت ایسے کیسوں میں ملزمان کا ٹرائل روک دیتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایسے مقدمات میں ملزم خود یا عدالت اُس کے دماغ کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک میڈیکل بورڈ بنانے کا کہتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر رپورٹ میں آ جائے کہ فلاں شخص کی جرم کرتے وقت ذہنی حالت درست نہیں تھی تو عدالت ملزم کو وقتی طور پر قدرے ریلیف بھی دے سکتی ہے۔
ذہنی بیمار شخص کو کہاں رکھا جاتا ہے؟
قانونی ماہر سیف الملوک کے مطابق اگر کسی شخص کی ذہنی حالت درست نہ ہو تو عدالت سیکش 464 کے تحت اُسے جیل سے کسی بحالی مرکز منتقل کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
اُن کے بقول قوانین کے مطابق اگر دماغی حالت درست نہ ہونے والا شخص توہینِ مذہب کے علاوہ اگر کسی کو جان سے بھی مار دے تو اُس پر بھی یہ قانون لاگو ہوتا ہے۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ نئے قوانین کے تحت 295 سی کے تحت توہینِ مذہب کی تفتیش پولیس کے ایس پی لیول کے افسر سے کم افسر یا اہلکار نہیں کر سکتا۔
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے افراد جو ذہنی طور پر بیمار ہیں اور توہینِ مذہب کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس معاملے میں صفیہ بی بی کیس کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
صفیہ بانو کیس کیا ہے؟
خیال رہے صفیہ بانو بنام محکمہ داخلہ عدالتِ عظمٰی کا کیس ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ذہنی بیمار شخص کا مقدمہ کیسے چلے گا۔ کیا قواعد ہوں گے اور ایسے شخص کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے طبی ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔
سیف الملوک کے مطابق صفیہ بانو کیس سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ ہے جس کے تحت آٹھ افراد پر مشمتل ایک بورڈ بنایا جائے گا۔
اُن کے بقول بورڈ میں شامل ماہرِ نفسیات ملزم کی ذہنی حالت کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گی جس کی روشنی میں کیس نمٹایا جائے گا۔
فورم