خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے انتظامی مرکز خار میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے کنونشن میں ہونے والے دھماکے کو پولیس نے خود کش حملہ قرار دیا ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق خیبر پختونخوا کی پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات خان کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اتوار کو ہونے والا دھماکہ خود کش تھا۔
آئی جی پولیس کے مطابق خود کش حملے میں 10 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا جب کہ جلسے کے مقام سے بال بیئرنگ بھی ملے ہیں۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کے مقام سے خود کش حملہ آور کے اعضا بھی مل گئے ہیں۔
پولیس نے دھماکے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے کئی مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی دھماکے کی مذمت
تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک مبینہ بیان میں باجوڑ میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
قبل ازیں خیبر پختونخوا میں ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ماضی میں شدت پسند تنظیمیں داعش اور القاعدہ بھی سرگرم رہی ہیں۔ البتہ اتوار کو ہونے والے دھماکے کی ذمے داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔
ٹی ٹی پی نے اپنےبیان میں کہا ہے کہ اس کا ہدف صرف فوجی ادارے اور ان کے معاونین ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی اداروں کو شبہ ہے کہ اس حملے میں شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہو سکتی ہے۔
سی ٹی ڈی باجوڑ میں مقدمہ درج
خار میں ہونے والے خود کش حملے کا مقدمہ پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) باجوڑ میں درج کر لیا گیا ہے۔
خار کے ایس ایچ او نیاز محمد کی مدعیت میں درج مقدمے میں نامعلوم حملہ آور کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں دہشت گردی، قتل، اقدام قتل اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں ۔
سی ٹی ڈی باجوڑ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) امجد خان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر جیو فیکسنگ کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے جب کہ تحقیقات کے لیے قائم انکوائری ٹیم نے بھی اس مقام کا دورہ کیا ہے جس نے شواہد اکھٹے کیے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے زخمیوں کے بیانات بھی قلم بند کیے ہیں۔
اموات میں اضافہ
اتوار کو خار میں دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 54 ہو گئی ہے۔ ہلاکتوْں کی تصدیق ڈسٹرکٹ ہیتھ افسر (ڈی ایچ او) نے کی ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق دھماکے کے بعد زخمیوں کو ڈسٹرکٹ اسپتال باجوڑ اور ڈی ایچ کیو تیمرگرہ منتقل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ایسے زخمیوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سی ایم ایچ) منتقل کیا گیا جن کی حالت تشویش ناک تھی۔
مختلف اسپتالوں میں زخمیوں کی اموات سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اتوار کو مقامی انتظامیہ نے بتایا تھا کہ لگ بھگ 100 سے زائد زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
دوسری جانب دھماکے میں زخمی ہونے والے کئی افراد کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں میں بعض افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
امریکہ کی مذمت
امریکہ نے باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانہ دھماکے میں اموات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کا سفارت خانہ اس پر تشدد کارروائی کی بھر پور مذمت کرتا ہے جس میں بے گناہ افراد کی جانیں گئی ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کی دہشت گردی کے اقدامات کسی بھی پر امن اور جمہوری معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ امریکی سفارت خانے نے پاکستانی عوام سے مشکل وقت میں اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کی بھر پور حمایت بھی کی گئی ہے۔
سعودی عرب نے بھی پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی ہے۔
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت دنیا میں کہیں بھی تشدد اور دہشت گردی کو مسترد کرتی ہے اور پاکستان کی بھر پور حمایت کا اظہار کرتی ہے۔
'دشمن پاکستان میں جمہوری نظام کے خلاف ہے'
باجوڑ میں ہونے والے دھماکے کے بعد ایک بیان میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں پر حملے سے واضح ہے کہ دشمن پاکستان میں جمہوری نظام کے خلاف ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی ۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ باجوڑ کے انتظامی مرکز خار میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
پاکستان میں خود کش دھماکوں میں اضافہ
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کونفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی سات ماہ میں پاکستان میں 18 خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اعداد و شمار سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں رواں برس خود کش حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پی آئی سی ایس ایس کے مطابق پاکستان میں 2022 میں 15 جب کہ 2021 میں چار خودکش حملے کیے گئے تھے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2023 میں ہونے والے 18 میں نو خودکش حملے سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ہوئے ہیں۔