شدید گرمی نہ صرف ماحولیاتی چیلنجز میں اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ بھارت اور پاکستان پہلے ہی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں 2030 تک شدید گرمی سے کام کے اوقات میں نمایاں کمی کے خدشات ہیں ۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے رواں ہفتے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اگر درجۂ حرارت 34 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے تو کھلے آسمان تلے مشقت والی ملازمت میں کارکنوں کی کارکردگی 50 فی صد تک گر سکتی ہے
جولائی 2023 کو پہلے ہی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا ہے جس کے دوران امریکہہ سمیت دنیا کے کئی خطوں میں جنگلات میں آتش زدگی کے کئی واقعات ہوئے ہیں اور ریکارڈ درجۂ حرارت نے کئی علاقوں میں صحت اور کام کے حوالے سے معمول کی زندگی کو متاثر کیا۔
اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق زراعت اور تعمیراتی شعبوں میں سرگرمیاں شدید گرمی کے اثرات کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہونے سے زراعت کے شعبے میں 60 فی صد نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
لیکن گرمی کی شدت جسمانی طور پر کام کرنے والی ایسی تمام ملازمتوں میں ہو سکتا ہے جس کے لیے ملازمین کو براہِ راست سورج تلے کئی گھنٹوں تک کام کرنے یا حفاظتی لباس پہننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادارے کے ماہر معاشیات نکولس میتر کے مطابق پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں گرمی کا تناؤ یا آکو پیشنل ہیٹ اسٹریس سے مراد ایسی صورتِ حال ہے جہاں گرمی کی وجہ سے کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور اس کا انحصار صرف درجۂ حرارت پر ہی نہیں ہے بلکہ ہوا میں نمی اور شمسی تمازت پر بھی ہوتا ہے۔
گرمی کے تناو کی وجہ سے کارکنوں کے لیے زخمی ہونے اور اس سے متعلقہ موسمی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے جو ان کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جنوبی ایشیا پر اثرات
قبل ازیں سال 2019 میں آئی ایل او کی رپورٹ "ورکنگ آن اے وارمر پلینیٹ" یعنی "گرم تر ہوتی زمین پر کام کرنا" میں بیان کیاگیا تھا کہ بھارت اور پاکستان جنوبی ایشیا میں شدید گرمی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ سے 2030 میں کام کے اوقات میں 5.5 فی صد سے زیادہ کا نقصان ہو گا جب کہ ملک کے اندر ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
پاکستان اپنے محل وقوع ، محدود مالی وسائل اور بدلتے حالات کے مطابق موافق ماحول میں ڈھالنے کی صلاحیت کے فقدان کے باعث ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی شدید موسمیاتی حالات سے سب سے زیاد ہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔
گزشتہ سال ملک کو تاریخ کے بد ترین سیلاب سے دوچار ہونا پڑا جس سے ایک جانب جانی نقصان ہوا جب کہ دوسری جانب اندازوں کے مطابق پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق بھارت شدید گرمی کے تناؤ سے سب سے زیادہ متاثرہونے والا ملک ہوگا۔
بھارت نے سال 1995 میں کام کے 4.3 فی صد گھنٹے کھو دیے تھے۔
آئی ایل او کے مطابق 2030 ملک کے کام کے اوقات میں 5.8 فی صد سےکمی آئے گی۔
ملک میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور اس سے زیادہ متاثر ہوں گے اور یو ں شدید گرمی تعمیراتی شعبے پر اثرا نداز ہوگی۔
مزید برآں، بڑی آبادی ہونے کی وجہ سے بھارت میں سال2030 میں تین کروڑ 40 لاکھ افراد کل وقتی ملازمت کھو سکتے ہیں۔
عالمی نقصانات کا تخمینہ
سال 2019 کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ گرمی کا تناؤ تیزی سے معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔
یہ گرم ترین اوقات میں کاروباری اداروں کے کام کرنے کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔ ان نئے اور خطرناک حالات کے مطابق ڈھالنا ایک مہنگا کام ہے۔
اگر صدی کے آخر تک گلوبل وارمنگ کو صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو بھی گرمی کے دباؤ کی وجہ سے مجموعی طور پر دنیا کو ہونے والا مالی نقصان سال 2030 تکدو ہزار چار سو ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
آخر اس کا حل کیا ہوگا؟
ماہرین کی نظر میں ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا ایک بہتر مستقبل کے لیے ہر ملک کی اہم ترین ترجیح ہونی چاہیے۔
ملکوں کو بدلتے غیر موافق حالات میں محفوظ طریقے سے ڈھالنے کی صلاحیت بھی اقتصادی ترقی اور عوامی فلاح پر اثر انداز ہوگی۔
علاوہ ازیں نکولس میتر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شدید گرمی کا تناؤ ان لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر اپنے آپ کو موافق ماحول کی جانب جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایسا کرنا ایک بہت ہی مہنگا کام ہے۔
ان کے بقول یہ سماجی انصاف کا معاملہ ہے اور یہ ملکوں کے اندر عدم مساوات کو کم کرنے کا معاملہ ہے۔
شدید گرمی سے پیدا ہونے والے دباو کو کم کرنے کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ کام میں وقفوں کی تعداد میں اضافہ، پانی تک رسائی کو بہتر بنانا، اوقات کار میں تبدیلی لانا اور کارکنوں کا باری باری کام کرنا مؤثر اقدامات ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کارکنوں کا شدید موسم کے مطابق لباس کو ڈھالنا، باقاعدگی سے پانی پینا اور معمول کے مطابق خود کی صحت کی جانچنے جیسے اقدامات بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔