امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے دورۂ بھارت کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب جے شنکر، وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔
بلنکن نے بھارتی حکام کے ساتھ علاقائی سیکیورٹی، افغانستان کی صورتِ حال، کرونا وبا کے سلسلے میں تعاون میں اضافے اور انڈو پیسفک اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔
مذاکرات کے بعد بدھ کو ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انڈو پیسفک خطے میں استحکام اور خوشحالی کے لیے امریکہ اور بھارت کی شراکت داری بہت اہم ہے۔
ان کے بقول دنیا میں ایسے بہت کم رشتے ہوں گے جیسے وسیع اور اہم رشتے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہیں۔
ان کے مطابق مشترکہ اقدار، آزادی اور مساوات کی ہمارے رشتوں کی بنیاد ہے اور اسے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹس کے مطابق فریقین نے افغانستان کی صورتِ حال پر تفصیل کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جہاں سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہو رہا ہے۔
ایس جے شنکر نے کہا کہ اب جب کہ امریکہ وہاں سے واپس جا رہا ہے تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اچھے یا برے۔ جو بھی ہوں ہمیں ان سے نبرد آزما ہونا ہے۔
ان کے مطابق خطے کے تقریباً تمام ملکوں میں امن کے لیے وسیع تر اتفاق رائے ہے۔
بلنکن نے کہا کہ افغانستان کا مستقبل تشدد اور شہریوں کو بنیادی آزادی سے محروم کر کے نہیں لکھا جا سکتا۔ یہ دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے کہ طالبان آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
بلنکن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے افغانستان سمیت خطے کی سیکیورٹی کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ امریکہ اور بھارت پرامن، مضبوط اور مستحکم افغانستان کے حق میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت خطے کے اہم ملک کی حیثیت سے افغانستان کے استحکام اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ امریکہ اور بھارت افغان عوام کے حق میں اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پر امن افغانستان کے لیے طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر آنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ شدت کے ساتھ یہ بات محسوس کرتا ہے کہ افغانستان میں مستقبل کی کوئی بھی حکومت افغان عوام کے حقیقی نمائندوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ دنیا ایک آزاد، خود مختار اور جمہوری افغانستان دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کی آزادی اور حکمرانی کو اسی وقت یقینی بنایا جا سکے گا جب وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان دہشت گردوں کا مرکز نہیں ہونا چاہیے۔ پرامن مذاکرات سے ہی مسئلے کا حل کیا جا سکتا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے کرونا وبا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے دونوں ملکوں کو بری طرح متاثر کیا اور امریکہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی مدد کو فراموش نہیں کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ نے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے بھارت کو دو سو ملین ڈالر دیے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور بھارت دونوں کرونا وبا کے خاتمے کے عہد کے پابند ہیں۔
ایس جے شنکر نے اس سلسلے میں امریکی امداد کا اعتراف بھی کیا۔
انہوں نے بھارت میں ویکسین کی پیداوار کے لیے خام مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ اینٹنی بلنکن نے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لاما کے نمائندے سے مختصر ملاقات کی۔ یہ ملاقات سول سوسائٹی کے دیگر نمائندوں سے ملاقات کے دوران ہوئی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ملاقات پر چین میں عدم اطمینان کا اظہار فطری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس ملاقات کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ دلائی لاما نے 2016 میں واشنگٹن میں اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما سے بھی ملاقات کی تھی۔
سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقات میں بلنکن نے بین المذاہب تعلقات، بھارت میں پریس کی آزادی، متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج، متنازع لو جہاد قانون، شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے)، اقلیتوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کے موضوعات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
رپورٹوں کے مطابق بھارت میں صحافیوں کی گرفتاری اور اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے سیکڑوں افراد کی مبینہ جاسوسی پر بھی انہوں نے گفت و شنید کی۔
خیال رہے کہ پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے دوران پیگاسس اور زرعی قوانین کے معاملے پر حزبِ اختلاف کی جانب سے ہنگامہ کیا جا رہا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پیگاسس کے معاملے پر پارلیمنٹ میں وزیرِ اعظم یا وزیرِ داخلہ کی موجودگی میں بحث کرائے اور پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔
حزبِ اختلاف کے ہنگامے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی میں مسلسل رخنہ پڑ رہا ہے۔ حکومت اس معاملے پر بحث اور تحقیقات کے لیے تیار نہیں ہے۔