رسائی کے لنکس

بلنکن کا دورۂ بھارت: 'افغان تنازع، چین اور پاکستان کے متعلق بات چیت ہو گی'


امریکی وزیرِ خارجہ دو روزہ سرکاری دورے پر
امریکی وزیرِ خارجہ دو روزہ سرکاری دورے پر

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اپنے پہلے سرکاری دورے پر بدھ کو بھارت پہنچ رہے ہیں۔ وہ دو روزہ دورے کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، وزیرِ خارجہ جے شنکر اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقاتیں کریں گے۔

ان کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل جنوبی اور وسطی ایشیائی اُمور کے لیے امریکی نائب معاون وزیرِ خارجہ ڈین تھامپسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اینٹنی بلنکن بھارتی حکام کے ساتھ مذاکرات میں انسانی حقوق، جمہوریت اور شہریت کے متنازع ترمیمی قانون سی اے اے سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت دونوں انسانی حقوق اور جمہوریت کی مشترک قدریں رکھتے ہیں۔"

ان کے بقول بھارت اور امریکہ کے درمیان بہت مضبوط دو طرفہ تعلقات ہیں اور وہ مزید مضبوط ہوں گے۔

بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ماہ انسانی حقوق کے ایک کارکن 84 سالہ اسٹن سوامی کی حراست کے دوران موت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور بھارت سے اپیل کی تھی کہ وہ جمہوریت کی مضبوطی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے اہم کردار کا احترام کرے۔

اسرائیلی سافٹ ویئر 'پیگاسس' کی مدد سے سیکڑوں افراد کی جاسوسی کے الزام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تھامپسن نے کہا کہ بھارت میں پیگاسس جاسوسی کے معاملے میں انہیں زیادہ علم نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع معاملہ ہے۔ لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کمپنیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی ٹیکنالوجی کا اس طرح سے استعمال نہ ہو۔

کویت اور بھارت کے دورے پر روانگی سے قبل ایک ٹوئٹ میں اینٹںی بلنکن نے کہا تھا کہ وہ دورۂ کویت اور نئی دہلی کے دوران مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ تعاون اور مشترکہ مفادات سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

باخبر ذرائع کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ اور بھارتی اہل کاروں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سیکیورٹی، سائبر، دفاع اور انسدادِ دہشت گردی کے امور پر بھی گفتگو ہو گی۔ اس کے علاوہ انڈو پیسفک، خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں، افغانستان اور کرونا جیسے امور بھی زیرِ بحث آئیں گے۔

ڈین تھامپسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلنکن اس بات پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے کہ ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان کے قیام کے لیے بھارت اور امریکہ کو کیسے کام کرنا چاہیے۔

کیا پاکستان کے معاملے پر بھی بات ہو گی؟

اس سوال پر کہ کیا اس دورے میں بھارت اور پاکستان تعلقات پر بھی تبادلۂ خیال ہو گا؟ ڈین تھامپسن نے کہا کہ امریکہ سختی کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے تنازعات باہمی گفت و شنید سے حل کرنے چاہئیں۔

ان کے بقول امریکہ کو اس بات پر خوشی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر پر عمل جاری ہے۔ امریکہ ہمیشہ دونوں ملکوں کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرتا رہے گا کہ وہ باہمی رشتوں کو مزید مستحکم کریں۔

ادھر بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' نے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ دورے کے دوران پاکستان کی جانب سے ٹیرر فنانسنگ اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا معاملہ بھی نئی دہلی کے ایجنڈے بھی شامل ہو گا۔

اخبار کے مطابق بھارت امریکہ سے مطالبہ کرے گا کہ وہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالے۔

خیال رہے کہ پاکستان ٹیرر فنانسنگ اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بھارتی الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

دریں اثنا بھارتی وزارتِ خارجہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوری اداروں کی مضبوطی پر بھارت کو فخر ہے اور چوں کہ انسانی حقوق کا معاملہ ایک آفاقی معاملہ ہے اس لیے بھارت اس پر تبادلۂ خیال کے لیے بھی تیار ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی مودی حکومت کو دائیں بازو کی ہندوتوا نواز سیاست کو آگے بڑھانے اور مبینہ طور پر اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے الزامات پر تنقید کا سامنا رہتا ہے۔

بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہب یا طبقے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کرتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بے بنیاد ہے۔ وہ انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے اور اگر کوئی شخص قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

البتہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں عدم برداشت کا ماحول بنتا جا رہا ہے اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے مودی حکومت پر دباو ڈالے۔

'انسانی حقوق اور جمہوری اقدار پر بھی بات ہو گی'

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اینٹنی بلنکن اور بھارتی حکام کے درمیان انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے امور کے علاوہ افغانستان اور انڈو پیسفک کی صورتِ حال اور کرونا وبا کے سلسلے میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ بھارت کے تعاون جیسے امور پر تفصیل کے ساتھ بات چیت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے کواڈ ممالک کے اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ کہ وہ علاقائی ممالک کو کووڈ۔19 ویکسین فراہم کرے گا لیکن وہ اس سلسلے میں تاحال کامیاب نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ خطے میں چین کے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ممالک کے اتحاد کو 'کواڈ گروپ' کہا جاتا ہے۔

ان کے مطابق بھارت اور چین سرحدی تنازع پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے مئی میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اینٹنی بلنکن کے ساتھ اس معاملے پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔

اسد مرزا نے مزید کہا کہ امریکہ اور برطانیہ چاہتے ہیں کہ بھارت انڈو پیسفک اور بالخصوص جنوبی بحیرہ چین میں مرکزی کردار ادا کرے۔ لیکن اس سلسلے میں بھارت امریکہ کی بعض شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کے مطابق بلنکن اور بھارتی اہل کاروں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے یہ واضح ہو جائے گا کہ بھارت انڈو پیسفک اور جنوبی بحیرہ چین میں کتنا اور کس طرح کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت 'کواڈ' کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے افغانستان میں امریکی انتظامیہ کی مدد کرے۔ اس مدد کے کیا خدوخال ہوں گے اس پر بھی بات چیت کی امید ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان نے اپنی سر زمین پر امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے اسی طرح بھارت بھی ایسی کسی تجویز کو تسلیم نہیں کرے گا۔ لیکن وہ افغان پولیس اور فوج کی ٹریننگ میں اپنی مدد کی پیش کش کر سکتا ہے۔

اس سے قبل امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ بلنکن 28 جولائی کو ایس جے شنکر اور وزیرِ اعظم مودی سے ملاقات کریں گے اور کووڈ۔19 کے سلسلے میں تعاون، انڈوپیسفک امور، مشترکہ علاقائی سیکیورٹی مفادات، مشترکہ جمہوری اقدار اور تبدیلی آب و ہوا جیسے امور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق فریقین بھارت اور امریکہ باہمی تعلقات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور انہیں آگے بڑھانے کے امکانات پر غور کریں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG