اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ وہ لڑائی بند کروانے کے لئے مزید رہنماوں سے فون پر بات کریں گے۔ اس لڑائی میں اب تک 200 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر فلسطینی تھے جو غزہ پر بمباری کے دوران ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب، مصر نے غزہ میں زخمی ہونے والوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ کو اندرون ملک، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے شراکت داروں، بعض ڈیموکریٹس، انتظامیہ کے اپنے اندر سے بعض راہنماؤں اور بین الاقوامی قائدین کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہونے والے اس بدترین تشدد کو بند کرانے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کرے۔
امریکی وزیرخارجہ نے، جو اس ہفتے نورڈک ممالک (سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ) کا دورہ کر رہے ہیں، کہا کہ امریکہ نے اس لڑائی کی شدت میں کمی لانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور وہ پیر کے روز اس ضمن میں مزید لوگوں سے ٹیلی فون پر بات کریں گے۔
بلنکن نے کہا کہ ہم نے اپنی سفارتکارانہ کوششوں میں واضح کیا ہے کہ ہم تمام فریقوں کی مدد اور ان کو دفاتر فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں اگر وہ جنگ بندی چاہتے ہیں۔
انہوں نے جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ ، مصر اور دیگر ملکوں کی کوششوں کا بھی خیر مقدم کیا اور کہا کہ امریکہ سفارتکاری پر مبنی ہر اس کوشش کی حمایت کرے گا، جو جنگ بندی کا راستہ ہموار کرے، ، لیکن یہ طے کرنا دونوں فریقوں پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کا راستہ اپناتے ہیں یا نہیں۔
ادھر وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری جین ساکی اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ "خاموش، اور بھرپور سفارتکاری" پر مرکوز ہے۔
دوسری طرف ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکہ نے سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیل فلسطینی لڑائی سے متعلق پندرہ رکن ملکوں کے ایک مشترکہ بیان کو جاری ہونے سے فی الوقت کے لئے روک دیا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان لڑائی میں اب تک 200 افراد ہلاک اور 1300 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ میں محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 35 خواتیں اور 59 بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل میں غزہ سے فائر کیے جانے والے حماس کے راکٹ حملوں میں اب تک پانچ سال کے ایک بچے اور ایک سپاہی سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
غزہ میں میڈیا دفاتر بھی بمباری کی لپیٹ میں
بلنکن نے مزید بتایا کہ انہوں نے اسرائیل سے پوچھا ہے کہ آیا اس کے پاس اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت ہے کہ حماس کے جنگجو اس عمارت سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے، جس کے اندر خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ کے دفاتر موجود تھے۔ اس عمارت کو اختتام ہفتہ ایک اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم، بلنکن نے کہا کہ ان کے پاس ذاتی طور پر اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ اور دیگر خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں ہفتے کے روز ایک کثیر منزلہ عمارت کو اسرائیل نے فضائی حملے میں تباہ کر دیا تھا، جس میں اطلاعات کے مطابق، ذرائع ابلاغ کے بین الاقوامی اداروں کے دفاتر موجود تھے۔
اس 12 منزلہ عمارت کو تباہ کرنے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے عمارت کے مالک کو اسرائیلی فوج کی طرف سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی جس میں حملے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور دیگر میڈیا اداروں کے نمائندوں اور عمارت کے مکینوں کو فوری طور پر عمارت سے باہر نکال لیا گیا، لیکن الجزیرہ متواتر یہ خبر دیتا رہا کہ اسرائیل کے فضائی حملے میں عمارت منہدم ہو گئی ہے۔ الجزیرہ نے ایک اعلان میں یہ بھی کہا کہ ان کا چینل خاموش نہیں ہو گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر گیری پروئٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ادارہ اس عمارت پر اسرائیل کے حملے کے باعث صدمے اور خوف میں ہے۔
اسرائیلی فوج نے اس بارے میں کہا ہے کہ اسے مسلمان عسکریت پسند گروپ حماس کے اندر موجود اپنے مخبروں کے ذریعے خبریں مل رہی تھیں کہ یہ گروپ میڈیا دفاتر کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہم نے اسرائیل کو براہ راست بتا دیا ہے کہ وہ صحافیوں اور غیر جانبدار میڈیا کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
مصر نے زخمی فلسطینیوں کے لیے سرحدیں کھول دیں
ادھر مصر نے اسرائیل کی بمباری میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے غزہ کی پٹی کے نزدیک اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ فلسطینی ایمبولنسوں نے دو شدید زخمی فلسطینیوں کو رفاح کراسنگ کے ذریعے مصر منتقل کیا۔
جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے، اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں میں حماس کے عسکریت پسندوں کے زیر استعمال عمارتوں کو نشانہ بنانے کے لیے سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے بھی اسرائیل پر تین ہزار ایک سو راکٹ داغے ہیں۔