امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ اب بھی ممکن ہے، حالانکہ دونوں فریقوں میں معاہدے کی مرکزی شرائط پر ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو حماس کی جانب سے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "فریب" تعبیر کیا۔
نیتن یاہو نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں، جو اب پانچویں مہینے میں ہے، "مکمل فتح" حاصل کرنے تک آگے بڑھنے کا عزم ظاہرکیا ہے۔
یتن یاہو نے قومی ٹیلی ویژن پر ایک ملک گیر نیوز کانفرنس میں کہا، "حماس کے فریب پر مبنی جو مطالبات جو ہم نے ابھی سنے ہیں ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے ، "نہ صرف قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آئے گی، بلکہ یہ ایک اور قتل عام کو دعوت دیں گے ۔"
حماس کا ردعمل اور مجوزہ معاہدے کی تفصیل
نیتن یاہو کے تبصر وں کے بعد حماس کے عہدیدار اسامہ حمدان نے کہا کہ ایک وفد مزید بات چیت کے لیے قاہرہ جائے گا،جو اس بات کی علامت ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے۔
جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا ردعمل لبنان کے اخبار، “ال اخبار” میں شائع ہوا، جو طاقتور حزب اللہ عسکریت پسند گروپ کے قریب ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار اور دو مصری عہدیداروں نے اس کی صداقت کی تصدیق کی۔ مذاکرات سے واقف ایک چوتھے اہلکار نے بعد میں تجویز کے مراحل کی وضاحت کی۔ سب ہی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ وہ مذاکرات کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دینے کے مجاز نہیں تھے۔
اس تجویز کے مطابق پہلے 45 دن کے مرحلے میں، حماس اسرائیل کے پاس قید فلسطینیوں کی ایک غیر متعینہ تعداد کے بدلے باقی تمام اسرائیلی خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے اور بیمار مردوں کو رہا کرے گی۔
اسرائیل بھی آبادی والے علاقوں سے انخلا کرے گا، فضائی کارروائیاں بند کر ے گا، پہلے سے کہیں زیادہ امداد کے داخلے کی اجازت دے گا اور فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا جن میں تباہ شدہ شمالی غزہ کے ان کے گھر شامل ہوں گے ۔
دوسرے مرحلے میں، جس پر گفت وشنید پہلے مرحلے کے دوران ہو گی، سینئر عسکریت پسندوں سمیت، پچاس سال سے زیادہ عمر کے تمام فلسطینی قیدیوں کے بدلے بیشتر فوجیوں سمیت باقی تمام یرغمالوں کی رہائی شامل ہو گی۔
اسرائیل مزید 1500 قیدیوں کو، جن میں سے پانچ سو کی نشاندہی حماس کرے گا رہا کرے گا، اور غزہ سے اپنا انخلا مکمل کرے گا۔
تیسرے مرحلے میں فریقین یرغمالوں اور قیدیوں کی باقیات کا تبادلہ کریں گے۔
حماس کے سینئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کی تازہ پیشکش کو مسترد کرنے کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ابو زہری نے کہا، ’’نیتن یاہو کے بیان سیاسی اکڑ دکھانے کی ایک شکل ہیں، جو خطے میں تنازع کو آگے بڑھانے کے ان کے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔تاہم بقول ان کے‘‘ تحریک (حماس) تمام آپشنز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
امریکہ کی کوششیں
بلنکن اس خطے میں ایک ایسا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے حماس کے خلاف جاری اسرائیل کی اس جنگ میں کچھ وقفہ مل سکے، جو 27,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت، علاقے کی زیادہ تر آبادی کی بے گھری اور انسانی تباہی کے ایک بحران کو جنم دینے کے بعد اپنے پانچویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے۔
بلنکن نے کہا غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی میں عام شہریوں کی اموات کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی کارروائی جو سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے سرحد پار سے ہونے والے ہلاکت خیز حملے کے جواب میں شروع ہوئی تھی، مکمل طور پر جائز ہے۔ لیکن انہوں نے غزہ کے شہریوں پر اس کارروائی کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔
اس لڑائی میں ہزاروں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس لڑائی کے نتیجے میں انسانی ہمدردی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ، جیسا کہ میں نے وزیر اعظم اور دوسرے اسرائیلی عہدے داروں کو بتایا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائی سے بے گناہ شہریوں کی روزانہ ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔
بلنکن، جو جنگ شروع ہونے کے بعد سے پانچویں بار خطے میں تھے،جنگ بندی کے مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جنگ کے بعد ایک بڑے تصفیے پر زور دے رہے ہیں جس میں سعودی عرب ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک واضح، قابل بھروسہ، ڈیڈ لائن کے حامل راستے کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے گا۔
لیکن تیزی سے غیر مقبول ہونے والے نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے خلاف ہیں اور اگر انہیں بہت زیادہ رعایتیں دیتے ہوئے دیکھا گیا تو ان کا جنگ پسند حکومتی اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔
اس سے قبل، بلنکن نے اسرائیل کے صدر، آئزک ہرزوگ کو بتایا کہ فریقین کو کسی معاہدے کی طرف لانے میں"بہت سا کام" باقی ہے۔
نیتن یاہو کا موقف
نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں قید تقریباً 100 یرغمالوں کو رہا کرنے کا بہترین طریقہ فوجی دباؤ ہے۔ وزیراعظم حماس کے تین مرحلوں پر مشتمل ایک تفصیلی منصوبے پر رد عمل دے رہے تھے جو ساڑھے چار ماہ میں سامنے آئے گا۔
اس منصوبے میں، جو امریکہ، اسرائیل، قطر اور مصر کی طرف سے پیش کی گئی تجویز کے جواب کے طور پر سامنے آیا ہے، یہ شرط رکھی گئی ہے کہ تمام یرغمالوں کو اسرائیل کے پاس قید سینئیر عسکریت پسندوں سمیت سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے بدلے رہا کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔
فورم