پاکستان نے بعض افغان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا جو قدم اٹھایا ہے اُسے ’نیو یارک ٹائمز ‘نے امن مذاکرات کے لیے ایک نئی امید سے تعبیر کیا ہے، یعنی پاکستان شاید اس کے لیے تیار ہو کہ مغربی فوجوں کی واپسی سے قبل امن مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔
اخبار نے پاکستان کے سکیورٹی کے ایک اہل کار کے حوالےسے بتایا ہے کہ سات یا آٹھ افغان طالبان قیدی رہا کئے گئے ہیں۔لیکن، ایک مغربی عہدے دار کے بقول رہا ہونے والے قیدیوں کی تعداد 14تک ہو سکتی ہے۔
افغان عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ رہائی پانے والوں میں طالبان دور کے وزیر انصاف ملا نورالدین ترابی بھی شامل ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ رہائی کے اس اعلان کو پاکستان کی نیک نیتی کی ابتدائی علامت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اِس کا روئے سخن شاید افغان اور امریکی عہدے داروں کے جانب ہے اور اُن مذاکرات کی طرف بھی جو سنگین عدم اعتماد کی وجہ سے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اخبار نے معروف تجزیہ کار نجم سیٹھی کے حوالے سے بتایا ہے کہ یقینی طور پر پاکستان کی یہ نئی سعی ہے جس سے دونوں فریقوں کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ وہ ایک تصفیے کے لیے سنجیدہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سالہا سال تک افغان طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر پاکستانی فوجی کی انٹلی جینس کو جو قدرت حاصل رہی ہے اُسے پاکستان کے لیے ایک ٹرمپ کارڈ کی نظر سے دیکھا جاتارہا ہے جس نے یہ بات یقینی بنا رکھی تھی کہ افغان باغی امریکیوں کے ساتھ یا افغان حکومت کے ساتھ اگر کوئی سمجھوتہ کریں تو اس کے لیے پہلے پاکستان سے رجوع کرنا ہوگا۔
انتخابات میں سرخ رُو ہونے کے بعد بدھ کو صدر اوباما نے جو پریس کانفرنس منعقد کی اُس کو’ واشنگٹن پوسٹ‘ نے فتح کی کانفرنس سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں صدر نے انتخابات میں اپنی زبردست کامیابی کو اپنی دوسری میعادِ صدارت کے لیے ایک ایسا مینڈیٹ قرار دیا جس کا مقصد غریب اور متوسط طبقے کی مدد کرنا ہوگا۔
اُنھوں نے خبردار کیا کہ ووٹروں نے اُن کو منتخب کرکے انتخابی مہم کے دوران اُن کے معاشی پروگرام کی تائید کی ہے۔
یہ پریس کانفرنس اُن کے دور صدارت کی بیسویں پریس کانفرنس تھی جس دوران اخبار کے مطابق وہ پُر اعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ باوجود یکہ اُن کو ایک سنگین قومی مالی بحران کا سامنا ہے اور سابق سی آئی اے ڈئریکٹر ڈیوڈ پیٹرےیس کا سکینڈل اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اپنی پہلی مدت صدارت کے مقابلے میں مسٹر اوباما دوسری میعاد میں کانگریس کے ساتھ اُن کا طرز عمل معرکہ آرائی کا ہوگا۔
صدر نے قانون سازی میں امی گریشن میں اصلاحات نفاذکرنے کی ترجیحی اہمیت پر زور دیا۔
ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے عزم کو دہراتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھوتا ممکن نظر آیا تو وہ سفارتی تکلفات کو اس کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔
صدر کی پہلی نیوز کانفرنس پر انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ہر شخص کو انتظار تھا کہ انتخابات کے بعد وہ اس اسی کانفرنس میں ملک کے مالی بحران پر کتنا سخت مؤقف اختیار کریں گے۔ چناچہ، صدر نے بغیر کسی لگی لپٹی کے واضح کردیا کہ وہ کسی بھی حال میں ملک کی آبادی کے دو فیصد دولتمندوں کے لیے بش دور کے ٹیکسوں کی چھوٹ کی توسیع نہیں کریں گے، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے اور جیسا کہ معاشی ماہرین کہتے ہیں۔
اس سے معیشت پر شاذ ہی کوئی اثر پڑے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ انتخابی مہم کےبعد اس سے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ امریکیوں کی اکثریت دولتمندوں پر زیادہ ٹیکس لگانے کے حق میں ہے اور صدر نے کہا کہ حقیقت میں اُن کا ووٹ اُنہی کو ملا ہے۔
اخبار نے پاکستان کے سکیورٹی کے ایک اہل کار کے حوالےسے بتایا ہے کہ سات یا آٹھ افغان طالبان قیدی رہا کئے گئے ہیں۔لیکن، ایک مغربی عہدے دار کے بقول رہا ہونے والے قیدیوں کی تعداد 14تک ہو سکتی ہے۔
افغان عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ رہائی پانے والوں میں طالبان دور کے وزیر انصاف ملا نورالدین ترابی بھی شامل ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ رہائی کے اس اعلان کو پاکستان کی نیک نیتی کی ابتدائی علامت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اِس کا روئے سخن شاید افغان اور امریکی عہدے داروں کے جانب ہے اور اُن مذاکرات کی طرف بھی جو سنگین عدم اعتماد کی وجہ سے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اخبار نے معروف تجزیہ کار نجم سیٹھی کے حوالے سے بتایا ہے کہ یقینی طور پر پاکستان کی یہ نئی سعی ہے جس سے دونوں فریقوں کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ وہ ایک تصفیے کے لیے سنجیدہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سالہا سال تک افغان طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر پاکستانی فوجی کی انٹلی جینس کو جو قدرت حاصل رہی ہے اُسے پاکستان کے لیے ایک ٹرمپ کارڈ کی نظر سے دیکھا جاتارہا ہے جس نے یہ بات یقینی بنا رکھی تھی کہ افغان باغی امریکیوں کے ساتھ یا افغان حکومت کے ساتھ اگر کوئی سمجھوتہ کریں تو اس کے لیے پہلے پاکستان سے رجوع کرنا ہوگا۔
انتخابات میں سرخ رُو ہونے کے بعد بدھ کو صدر اوباما نے جو پریس کانفرنس منعقد کی اُس کو’ واشنگٹن پوسٹ‘ نے فتح کی کانفرنس سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں صدر نے انتخابات میں اپنی زبردست کامیابی کو اپنی دوسری میعادِ صدارت کے لیے ایک ایسا مینڈیٹ قرار دیا جس کا مقصد غریب اور متوسط طبقے کی مدد کرنا ہوگا۔
اُنھوں نے خبردار کیا کہ ووٹروں نے اُن کو منتخب کرکے انتخابی مہم کے دوران اُن کے معاشی پروگرام کی تائید کی ہے۔
یہ پریس کانفرنس اُن کے دور صدارت کی بیسویں پریس کانفرنس تھی جس دوران اخبار کے مطابق وہ پُر اعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ باوجود یکہ اُن کو ایک سنگین قومی مالی بحران کا سامنا ہے اور سابق سی آئی اے ڈئریکٹر ڈیوڈ پیٹرےیس کا سکینڈل اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اپنی پہلی مدت صدارت کے مقابلے میں مسٹر اوباما دوسری میعاد میں کانگریس کے ساتھ اُن کا طرز عمل معرکہ آرائی کا ہوگا۔
صدر نے قانون سازی میں امی گریشن میں اصلاحات نفاذکرنے کی ترجیحی اہمیت پر زور دیا۔
ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے عزم کو دہراتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھوتا ممکن نظر آیا تو وہ سفارتی تکلفات کو اس کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔
صدر کی پہلی نیوز کانفرنس پر انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ہر شخص کو انتظار تھا کہ انتخابات کے بعد وہ اس اسی کانفرنس میں ملک کے مالی بحران پر کتنا سخت مؤقف اختیار کریں گے۔ چناچہ، صدر نے بغیر کسی لگی لپٹی کے واضح کردیا کہ وہ کسی بھی حال میں ملک کی آبادی کے دو فیصد دولتمندوں کے لیے بش دور کے ٹیکسوں کی چھوٹ کی توسیع نہیں کریں گے، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے اور جیسا کہ معاشی ماہرین کہتے ہیں۔
اس سے معیشت پر شاذ ہی کوئی اثر پڑے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ انتخابی مہم کےبعد اس سے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ امریکیوں کی اکثریت دولتمندوں پر زیادہ ٹیکس لگانے کے حق میں ہے اور صدر نے کہا کہ حقیقت میں اُن کا ووٹ اُنہی کو ملا ہے۔