رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان جہاں قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہیں اسے پھلوں کی کاشت کے لیے بھی خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں معمول سے کم بارشوں، زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے اور بجلی کی طویل بندش سے بلوچستان میں پھلوں کی پیداوار شدید متاثر ہوئی اور اس شعبے سے وابستہ لوگ مالی مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں۔
بلوچستان زمیندار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری حاجی عبدالرحمن بازئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہر سال سیب کی پیدوار میں چھ لاکھ ٹن کمی واقع ہو رہی ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے بہت سے کاشتکار اپنے سوکھ جانے والے باغوں کے درختوں کو اب ایندھن کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
"ایک محتاط اندازے کے مطابق اندازًا 16 لاکھ ٹن سیب بلوچستان میں ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہاں بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور کم پانی کی وجہ سے اکثر جو زمیندار ہیں اُن کے باغ سوکھ چکے ہیں چونکہ اُن کو پانی نہیں دے پارہے۔ اگر آپ کان مہترزئی کی طرف جائیں اور راستے میں اور بہت سارے میدانی علاقے ہیں وہاں پر آپ ہزاروں خشک درخت اُکھاڑتے ہوئے دیکھیں گے۔ یہ ہمارے زمینداروں کا اتنا بڑا نقصان ہو رہا ہے اور ایک قسم کا قومی نقصان بھی ہے۔"
صوبہ بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور صوبے کے تاجر خاص طور پر ایران سے بہت سے پھل اور سبزیاں درآمد کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک طرف سے زرمبادلہ بیرون ملک جا رہا ہے وہیں میٹھے پھلوں کی باسکٹ کہلوانے والے اس صوبے کے زمینداروں کو اپنے مال کے مناسب دام بھی نہیں مل رہے جس سے ان کی مشکلات مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔
عبدالرحمن بازئی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے دوسرے ممالک سے سیب اور دیگر پھل برآمد کرنے کے لیے اجازت نامے دے رکھے ہیں جنہیں منسوخ کیا جانا چاہیئے تاکہ برآمدی پھل کی وجہ سے مقامی کاشتکاروں کو ہونے والے نقصان کا کچھ ازالہ ہو سکے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو مختلف موسموں کے حوالے سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت صوبے کے مختلف علاقوں کے زمینداروں کو موسم کے مطابق فصلیں اور باغ لگانے کے لیے رہنمائی فراہم کرے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں سے کسانوں اور کاشتکاروں کی طرف مختلف شکایات سامنے آتی رہی ہیں جن میں اپنی اجناس کی مناسب قیمت کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔
تاہم حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ وہ کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدام کر رہی ہے اور حال ہی میں وزیراعظم نے تین سو ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان بھی کیا۔