بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل حکومتی اتحاد سے الگ ہو چکے ہیں اور انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جس کی وجہ سے اس اقدام کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن بلوچستان کو اپنا سمجھے اور ان کے مطالبات کے لیے ساتھ دے تو وہ اس سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ اُن کا معاہدہ چند نکات پر مشتمل تھا اور ان پر عمل درآمد کے لیے وہ بارہا حکومت کو یاددہانی کراتے رہے۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکومت کو جب بھی ہمارے ووٹ کی ضرورت پڑی ہم نے اُن کا ساتھ دیا چاہے وہ وزیر اعظم کا انتخاب ہو یا صدارتی انتخابات، یہاں تک کہ بجٹ پر بھی ہم نے حکومت کا ساتھ دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ جن نکات پر اُنہوں نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا تھا اس پر عمل درآمد کی پیش رفت کا جائزہ لیتے۔ لیکن بدقسمی یہ ہے کہ ہم ہی اُنہیں یاد دلاتے تھے پھر کمیٹیاں بنتی تھیں۔ لگتا یہ تھا کہ وہ مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔
اختر مینگل کے بقول جب وہ خود اپنی پارٹی کو بھی اس معاملے پر قائل نہ کر سکے تو پارٹی نے اتحاد سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اُن کا حکومت کے ساتھ معاہدہ چھ نکات پر مشتمل تھا جن میں لاپتا افراد کا معاملہ سرِ فہرست تھا۔ معدنیات میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے، بڑے ڈیم کی تعمیر، آئین کے مطابق بلوچستان کا وسائل میں حصہ اور افغان مہاجرین کی واپسی اس معاہدے کے بنیادی نکات تھے۔
اختر مینگل کے بقول صدارتی انتخابات سے قبل حکومت نے ہمارے ساتھ مزید نو نکاتی معاہدے پر دستخط کیے جن میں صحت، تعلیم، پانی، توانائی کے منصوبے، روزگار، ماہی گیروں کے مسائل کا حل اور وفاقی ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان کے حصے میں اضافے کی یقین دہانیاں شامل تھیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے حکومت کو 5128 لاپتا افراد کی فہرست دی تھی ان میں سے صرف 418 لوگ بازیاب ہوئے۔ لیکن اسی دوران حکومت کو آگاہ کیا کہ 500 کے لگ بھگ مزید لوگ لاپتا ہو گئے۔ لیکن اس معاملے پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
حکومت کی جانب سے رابطے کے سوال پر اختر مینگل نے کہا کہ اگر حکومت نے بلوچستان کے مذکورہ مسائل حل کر دیے تو اُنہیں ہماری حمایت کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ پورا بلوچستان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائے گا۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکریٹری انفارمیشن احمد وقاص جنجوعہ کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات حل کرنے کے لیے تیار ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا ہے کہ بی این پی کے حکمران اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
اُن کے بقول تحریک انصاف کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ بی این پی کے پاس حکومتی اتحاد سے وابستہ رہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے اور وہ حکومتی اتحاد میں رہ کر ہی بلوچستان کے لیے کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ الگ ہونے والے جلد کسی نہ کسی شکل میں ایک بار پھر حکمراں اتحاد کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔
قمر عباس جعفری کی رپورٹ سننے کے لیے نیچے دیے ہوئے لنک پر کلک کیجیے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کا جائزہ لیں تو 156 نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ کے سات ارکان، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، پانچ ارکان کے علاوہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے تین، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے ایک، ایک رکن کی حمایت حاصل ہے۔
172 کی عددی اکثریت کے ایوان میں 178 اراکین کی حمایت رکھنے والی تحریک انصاف کو اگرچہ بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے تاہم بجٹ منظوری سمیت ہر قانون سازی کے لیے حکومتی جماعت کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنا ہو گی۔
پارلیمانی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں تحریک انصاف کے لیے ایوان کو چلانا اور اپوزیشن کی حمایت کے بغیر قانون سازی کرنا مشکل ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی صورتِ حال میں حکومت اتحادی جماعتوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی اور اسے عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے اپنی جماعت کے اراکین کی ایوان میں سرگرم شمولیت یقینی بنانا ہو گی۔