رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: پانی میں ڈوبے علاقوں کے بس اسٹاپس پر اب کشتیاں کھڑی ہیں


دادو کی چاروں تحصیلیں سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں جہاں ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ (فائل فوٹو)
دادو کی چاروں تحصیلیں سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں جہاں ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کےصوبے سندھ میں دادو شہر کے قریب ایک سڑک کے اختتام پر بس اسٹاپ کی طرح کشتیوں کا بھی ایک اسٹاپ بن چکا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے مسافر پانی میں گھرے اپنے علاقوں تک جانے کےلیے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔

دادو کے اس مقام پر تین ہفتے قبل تک جوہی اورگردو نواح کے درجنوں دیہات کے لیے ویگن سروس اورچنگچی رکشے چلتے تھے ۔البتہ حالیہ بارشوں اورسیلاب کے بعد یہ سارا علاقہ زیرِآب آنے کے بعد ویگنوں اوررکشوں کی جگہ کشتیوں نے لے لی ہے کیوں کہ جوہی کے گردونواح میں آباد بستیاں اور گوٹھ بارش اور سیلاب کے بعداب چھوٹے چھوٹے جزیروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

پانی کے دوسرے کنارے مکمل یا جزوی طورپرتباہ حال گھروں پرمشتمل درجنوں گاؤں جانے والے ان مسافروں کے پاس سامان بھی ہے جن میں کھانے ینے کی اشیا، اجناس، مویشی اورموٹرسائیکلیں شامل ہیں۔

مون سون کی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے رواں برس 14 جون سے 18 ستمبر کے درمیان ملک بھر میں 1500 سے زائد افراد ہلاک اور 12 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوچکے ہیں جب کہ تین کروڑ سے زیادہ شہری بے گھر ہیں۔

پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث دادو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع ہے، جس کے چاروں تحصیلیں جوہی، خیرپورناتھن شاہ، میہڑ اور دادو میں درجنوں گاؤں زیراب آچکے ہیں۔ان علاقوں میں تاحال آٹھ سے 10 فٹ پانی کھڑا ہے۔ کئی ہفتوں سے جمع اس پانی کے بارے میں حکام کا کہناہے کہ اس کے اخراج میں مزید تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔

سندھ کے مغربی حصے میں واقع بلوچستان کی سرحد سے متصل ضلع دادو کے علاقوں میں غیر معمولی بارشوں کے ساتھ ساتھ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے۔ دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ان حالات میں قریبی علاقوں سے ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں یہاں اب روز مرہ سفر کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔

جوہی اور ملحقہ علاقوں میں اب روز مرہ سفر کے لیے کشتیاں استعمال ہورہی ہیں۔
جوہی اور ملحقہ علاقوں میں اب روز مرہ سفر کے لیے کشتیاں استعمال ہورہی ہیں۔

مقامی لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ کشتیاں دادو کے قریبی اضلاع مورو، جام شورو اور آس پاس کے علاقوں سے سیلاب آنے کے دو تین بعد ہی پہنچ گئی تھیں۔ دادو سے جوہی تک کشتی چلانے والے ارشد ملاح نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ مورو سے تقریبا چالیس پچاس کشتیاں جوہی، میہڑ اورخیرپورناتھن شاہ کے علاقوں میں مسافر کشتیوں کے طورپر استعمال ہورہی ہیں۔

ارشد ملاح نے بتایا کہ شروع شروع میں وہ پانی میں گھرے دیہات کے تباہ حال گھروں کے مکینوں کو ان کے قیمتی سامان اورمال مویشی کے ساتھ دادو شہرمنتقل کرنے میں مصروف تھے جب کہ اب یہ کشتیاں روز مرہ سفر کے لیے استعمال ہونے لگی ہیں۔

سڑ ک پر چلنے والی گاڑیوں کی جگہ لینے والی ان کشتیوں کا دادو سے جوہی شہر تک کا فی کس کرایہ 100 سے 300 روپے تک ہے جب کہ مویشی، موٹرسائیکل اوردیگرسامان لے جانے کے لیے اضافی کرایہ لیا جاتاہے۔ ان کشتیوں میں عام طور پر 15 سے 20 مسافر سوار ہوتے ہیں۔

ارشد ملاح کا کہناہے کہ دور دراز دیہات تک جانے کے لیے خصوصی طور پر کشتی بک کرانا پڑتی ہے جس کا کرایہ دو سے تین ہزار روپے ہوتاہے۔

ان کاکہناہے کہ یہاں کشتیاں چلانے والے ملاح مقامی نہیں ہیں۔ اس لیے وہ مسافروں ہی سے راستہ پوچھتے ہیں جو بجلی کے کھمبوں، سرکاری عمارات اوردیگربچی کچی نشانیاں دیکھ کر اندازے ہی سے پانی میں ڈوبے اپنے محلہ، گلی یا مکان تک پہنچتے ہیں۔

جوہی کے گردونواح دیہات میں فعال مقامی این جی او ’سجاگ سنسار آرگنائزیشن‘ کے رہنما معشوق برہمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ دادو کے زیادہ ترعلاقے پکی سڑک یا کچے راستوں کے ذریعے جوہی شہر سے ملے ہوئے ہیں لیکن حالیہ شدید بارشوں کے بعد یہ تمام علاقے زیرِ آب آنے کے باعث زمینی طور پر جوہی سے مکمل طور پر کٹ کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں تک رسد کا کوئی راستہ نہیں ہے اور کھانے پینے کی اشیا کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔

'ایسا لگتا ہے کہ جزیرے میں رہ رہے ہیں'

جوہی کے دیہی علاقوں میں مکین ایک جانب اپنا گھر بار اور گاؤں ڈوب جانے کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری جانب اجناس اوربنیادی ضرورت کی اشیا کے لیے باربارشہر آنے کی صورت میں کشتیوں کے کرائے سے ان کے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہواہے۔

سیلاب کے بعد قریبی علاقوں سے ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں یہاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔
سیلاب کے بعد قریبی علاقوں سے ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں یہاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔

جوہی کے پاس آباد ودا کھوسہ نامی چھوٹے سے گوٹھ میں 25 گھر آباد تھے۔ ان میں سے 15 کے مکین نقل مکانی کرچکے ہیں مگرغلام محمد نامی رہائشی اپنے بیوی اوردو بچوں کے ساتھ اپنے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دو دن مسلسل ہونے والی بارش کے بعد جب ان کے گھر میں پانی بڑھ رہا تھا تو انہوں نے گھر میں موجود چارپائیوں پرچارپائیاں رکھیں اور ان پربیٹھ کر اپنی جان بچائی۔

انہوں نے بتایا کہ شروع کے دنوں میں وہ بھی پانی بڑھنے کے خوف سے نقل مکانی کرنا چاہتے تھے لیکن ریسکیو کے لیے کشتی نہ ملنے کی وجہ سے وہ مجبوراً گھر میں رکے رہے البتہ اب انہیں یہاں خوراک اورپینے کے صاف پانی کی قلت کی وجہ سے بڑی پریشانی کا سامنا ہے۔

غلام محمد کا کہناہے کہ سیلاب آنے کے بعد صرف ایک بار ایک غیرسرکاری تنظیم نے کشتی کے ذریعے پانچ کلو چاول، گھی اوردالیں پہنچائی تھیں مگر اس کے بعد نہ ہی کوئی حکومتی نمائندہ اب تک ان کے پاس امداد کے لیے پہنچا اور نہ ہی کوئی این جی او۔

خستہ حال مکان کے پاس ہی غلام محمد کا کھیت بھی تھا جہاں اس کی چاول کی فصل تقریباََ تیار ہوچکی تھی لیکن بارش نے سب تباہ کر دیا۔

غلام محمد کے بقول سیلاب سے پہلے جہاں گاؤں میں کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے، اب وہاں پانی ہی پانی نظر آتاہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی جزیرے میں رہ رہے ہیں، کبھی لگتا ہے کہ خواب دیکھ رہے ہیں۔

غلام محمد کاکہناہے کہ 2010 کےسیلاب کی بہ نسبت اس بار بارشیں بھی زیادہ تھی اورپانی بھی کئی گنا زیادہ جمع ہواہے۔ان کے بقول"پچھلے سیلاب کا پانی تو دو تین ہفتے میں ختم ہو گیا تھا مگر اس بار پانی کو جاتے جاتے بھی تین چار ماہ لگ جائیں گے۔"

شہریوں نے جوہی شہر بچالیا

جوہی شہر کے اطراف میں پانی میں اضافہ ہونے کے بعد شہریوں نے 2010 کے سیلاب کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہرکے گرد قائم ساڑھے سات کلومیٹر بند کو دن رات محنت کرکے مضبوط بنانایا تھا۔ یہ محنت رنگ لائی اور شہر ڈوبنے سے بچ گیا۔

جوہی کے سابق کونسلر مشتاق علی نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ پچھلے سیلاب کی طرح اس مرتبہ بھی علاقے کے لوگوں نے بند کی بھرائی کے لیے دن رات ایک کردیے۔ شہر کو ڈوبنے سے بچانے لیے جی جان سے محنت کرنے والوں میں خواتین اوربچوں بھی شامل تھے۔ سب نے مل کر بھرائی اور پتھروں سے بند کو مضبوط کیا اور پانی کو اس کی سطح پر نہیں آنے دیا۔

ان کے بقول، "جس کو جوملا وہ اپنے گھر سے لایا۔ خواتین، مرد بچے سبھی پتھر، پلاسٹک وغیرہ جمع کرتے رہے، مٹی کی بوریاں بھرتے رہے اور بند کو اونچا اورمضبوط کرتے رہے۔"

جوہی شہر کے پاس بھی کشتیوں کا ایک ایسا ہی اسٹاپ بنا ہواہے جہاں گورکھ کے قریب واقع ایک دیہات کے رشید رند موٹرسائیکل کے ساتھ کشتی کے ذریعے دادو شہر جارہے تھے۔ انہیں وہاں سے اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے دوائیں اور روزمرہ کی کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا گاؤں پہاڑی سلسلے پر ہونے کے سبب ان کا مکان ڈوبنے سے تو بچ گیا لیکن اسے نقصان پہنچا ہے۔

ان کے بقول، وہ گورکھ سے بڑی مشکل سے موٹرسائیکل سے جوہی پہنچے ہیں جہاں سے وہ اب 500 روپے کشتی والے کو دے کر دادو جائیں گے۔

حکام کے مطابق برسات سے جمع ہونے والا پانی نکلنے میں تین ماہ سے زائد وقت لگ سکتا ہے۔
حکام کے مطابق برسات سے جمع ہونے والا پانی نکلنے میں تین ماہ سے زائد وقت لگ سکتا ہے۔

جوہی شہر سے دادو تک پہنچنے میں کشتی 30 سے 40 منٹ لے رہی ہے لیکن کشتیوں کے ذریعے یہ سفر مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی خطرناک بھی ہے۔13 ستمبر کو پیٹرول سے آگ لگ جانے کے باعث دادو سے جوہی جانے والی ایک کشتی پر 15 افراد کو جان بچانے کے لیے پانی میں کودنا پڑا تھا۔

بعد میں نزدیک ہی گزرنے والی کشتیوں میں سوار افراد نے ان کی جان بچائی تھی۔

اس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی یہ کشتیاں مسافروں کے لیے کتنی محفوظ ہیں؟ یہ سوال ضرور پیدا ہوگیا۔

لیکن زندگی رواں دواں رکھنے کے لیے کشتیوں کا سہارا لینے والے ان لوگوں کو کئی اور معاملات کا سامنا بھی ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس سیلاب اور بارش سے آنی والی تباہی کے باعث انہیں مسائل کے جس منجھدار کا سامنا ہے ، وہ اس سے کیسے پار اتریں گے؟ حکام پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ان کی آبادیوں کو نگل جانے والا پانی ابھی دو تین ماہ تک تو یہیں رہے گا۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG