اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق، نائجیریائی بوکو حرام کے شدت پسند خودکش بم حملوں میں زیادہ تر بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بوکو حرام کے ہاتھوں 2015ء میں ہونے والے خودکش حملوں میں 44 بچے شامل تھے، جو پچھلے برسوں کے مقابلے میں 10 گُنا اضافہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، گذشتہ دو برسوں کے دوران، بوکو حرام کے پانچ میں سے ایک خودکش بم حملہ آور بچہ تھا، جن میں سے 75 فی صد نہ صرف کم عمر بلکہ لڑکیاں تھیں۔
بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد گروپ بچوں کو استعمال کر رہا ہے، جنھیں عمومی طور پر اِس بات تک کا بھی پتا نہیں ہوتا کہ اُن کے جسم پر دھماکہ خیز مواد باندھا گیا ہے، اور مارکیٹ کی بھیڑ ہو یا پھر مسجد، اُنھیں شاید ہی کوئی خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
یونیسیف کے بقول،’’بم حملوں میں اطفال کے باضابطہ استعمال سے، جنھیں ہو سکتا ہے کہ بم اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہو، اِس سے خوف اور شبہے کی صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کے بچیوں پر تباہ کُن اثرات پڑتے ہیں، جو شمال مشرقی نائجیریا میں بوکو حرام کے ہاتھوں زیر حراست ہیں یا وہ جسمانی تشدد کی شکار ہیں۔‘‘
ادارے نے مزید کہا ہے کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران، صرف کیمرون ہی میں 21 خودکش حملے ہوئے جن میں بچوں کو استعمال کیا گیا؛ جب کہ نائجیریا میں 17 اور شاڈ میں دو ایسے شواہد سامنے آئے ہیں۔
یہ رپورٹ شمالی نائجیریا کے شہر شبوک سے بوکو حرام کے ہاتھوں دو سال قبل 276 لڑکیوں کے اغوا کی دوسری سالگرہ کی مناسبت سے جاری کی گئی ہے، جن میں سے ابھی تک 219 لاپتا ہیں۔