فلم نگری اتفاقات کی دنیا تو ہے ہی مگر یہاں کامیابی اور ناکامی میں قسمت کا عمل دخل دیگر شعبوں کی نسبت زیادہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسے حسین اتفاق کہئیے کہ کل تک ڈائریکٹر روہت شیٹھی کا نام ایک مخصوص طرز کی فلموں کے ساتھ جوڑ کر مذاق بنایا جاتا تھا اور آج جب قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی ہے تو شیٹھی کومالی اعتبار سے دو انتہائی کامیاب فلمیں دینے کے بعد پیار سے ”بالی وڈ کی ڈارلنگ‘کہا جانے لگا ہے۔
ان کی ڈائریکشن میں بننے والی دوفلمیں”گول مال “اور”سنگھم“ ایک بلین روپے سے زائد کا بزنس کرچکی ہیں۔ ان کی اسی کامیابی کا اثر ہے کہ آج شاہ رخ خان اور کرن جوہر جیسے بڑے نام بھی شیٹھی کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ آئندہ ماہ روہت شیٹھی کی نئی فلم ”بول بچن“ سینما گھروں کی زینت بننے جا رہی ہے جس میں موجودہ ہیں ابھیشیک بچن اور اجے دیو گن۔
روہت شیٹھی نے بالی وڈ میں اپنے سفر کے دوران پیش آنے والے نشیب و فراز، اپنے مخصو ص انداز سے بنائی جانے والی فلموں اور ان فلموں میں ایکشن سیکوئنز کے دوران گاڑیوں کے ٹکرانے اور ہوا میں قلابازیاں کھانے کے مناظر کی لازمی شمولیت کے بارے میں برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کی ہے ۔ اس گفتگو کے کچھ دلچسپ اقتباسات حسب ذیل ہیں
”زمین“
”فلموں میں کام کا آغاز میں نے 2001ء میں کیا تھا۔پہلی فلم بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی۔ اس کے بعد بے شمار فلموں میں اسسٹنٹ کے ہی فرائض انجام دئیے۔میں اجے دیو گن کی کمپنی میں ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ اجے دیوگن اور میں ”پیار تو ہونا ہی تھا“ اور ’راجو چاچا‘ میں ایک ساتھ کام کرچکے تھے۔” راجو چاچا “کی شوٹنگ کے دوران ہی میں نے فلم ’زمین ‘ کا اسکرپٹ لکھالیکن ’زمین‘ کامیاب نہ ہو سکی ۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ ”زمین “ کی ناکامی سے ہی میں نے یہ سیکھا کہ کمرشل فلمیں کیسے بنائی جاتی ہیں اور ایک پروڈیوسر کو کس طرح کا ہونا چاہئے۔“
”گول مال“
فلم ”گول مال “کا اسکرپٹ نیرج وہرہ نے لکھا تھا ۔ انہوں نے جب مجھے کہانی کاپلاٹ سنایا تو میں نے فوری طور پرفلم بنانے کا ارادہ کرلیا لیکن بہت سارے لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ایکشن فلموں کا ڈائریکٹر ہوتے ہوئے مجھے کامیڈی فلم بنانے کا تجربہ نہیں کرنا چاہئے لیکن اجے دیوگن نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
’یہ دو ہزار چار کی بات ہے جبکہ فلم کی شروعات کرنے میں ہمیں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا ۔ شوٹنگ کا آغاز 2005ء میں ہوا۔اس کے بعد جو ہوا وہ فلم انڈسٹری کی تاریخ بن گیا۔یہ اجے کی بھی پہلی کامیڈی فلم تھی اس لئے یہ ہم دونوں کے لئے ایک طر ح کا ”خودکش مشن “تھا۔بہرحال ہماری انتھک محنت رنگ لائی اور فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ بس یہیں سے میرا فنی کیرئیر بھی بلندیوں کی جانب بڑھتا گیا۔
سال کی سب سے بڑی اور ہٹ فلم
لوگوں نے فلم میں خامیاں تلاش کیں۔ کسی کو فلم سست لگی تو کسی کو فلم میں صرف ایک ہیروئن کے ہونے پر اعتراض تھا۔ان کے خیال میں کامیڈی فلم میں کم از کم دو ہیروئنز ہونی چاہئیے تھیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔فلم کی ریلیز کے وقت تک اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔ ریلیز سے ایک ہفتے قبل ممبئی میں ٹرینوں میں دھماکے ہو گئے۔لوگ کچھ بھی ایسا نہیں دیکھنا چاہتے تھے جو ہلکا پھلکا یا تفریحی ہولیکن فلم نے ریلیز ہونے کے ایک ہفتے کے بعدبزنس کرنا شروع کیا اور آخر کار بزنس کے لحاظ سے ”گول مال “سال کی سب سے بڑی فلم قرار پائی۔
”گول مار ریٹرن “ڈراوٴنی فلم
ہمارے رائٹرز کی ٹیم میں سے ایک رائٹر نے مجھے ایک اسکرپٹ دیا جسے دیکھ کر مجھے لگا کہ یہ ”گول مال“ کا اچھا سیکوئل ثابت ہو گا۔ہم نے صرف 68 دنوں میں بغیر کسی تعطل کے فلم کی شوٹنگ مکمل کی اور دیوالی پراسے ریلیز بھی کر دیا۔یہ فلم ایک با ر پھر سال کی سب سے منافع بخش فلم ثابت ہوئی۔ لیکن جب ہم نے ’گول مال ریٹرن‘ دیکھی تو اس کی بے مثال کامیابی کو صرف اوپر والے کی دین ہی سمجھا کیونکہ اسے دیکھ کر ایسا لگاجیسا کوئی ڈراوٴنی فلم دیکھ رہے ہوں۔اس میں جذبات نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔“
”ہم ’سانوریا‘ اور ’ٹشن ‘ کا مزاق اڑایا کرتے تھے لیکن ہماری اپنی فلم میں چار ہروئینز تھیں جو بچکانہ حرکتیں کر رہی تھیں لیکن مزے کی بات یہ کہ لوگوں نے انہیں بہت پسند کیا۔لیکن میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں آئندہ ایسی فلم نہیں بناوٴں گا۔لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں اور اسی محبت کی وجہ سے فلم دیکھتے ہیں لیکن ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔اسی لئے ہم نے اس فلم کے بعد اپنے اسکرپٹ کا انداز تبدیل کر دیا۔“
’سنگھم“
فلم ”سنگھم “میرے کیرئیر کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم نے مجھے جو عزت اور شہرت دی اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اس فلم کے بعد مجھے اپنے کام پر فخر سا محسوس ہونے لگا ہے۔ سنگھم ‘ ، اور ’گول مال ‘ جیسی فلموں سے فلم انڈسٹری کو ایک اعشاریہ ایک بلین روپے کمانے کا موقع ملا۔ میں نے ”سنگھم“ چار مہینوں میں بنائی۔ اجے نے اس کی شوٹنگ کا آغاز 7 مارچ کو کیا تھا جبکہ انہوں نے 6 مارچ کی رات کو اس کی کہانی سنی تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ یہ فلم ہٹ ہو گی۔فلم بنانے کے دوران ہر اسٹیج پر میں نے خود کو تھیٹر کے اندر محسوس کیا۔شوٹنگ کے دوران، ایڈٹنگ روم میں ہر جگہ ۔ میں نے فلم کوڈائریکٹر کے طور پر نہیں بلکہ ایک عام فلم بین کے طور پر دیکھا۔اگر فلم دیکھ کر مجھے مزہ آیا تودوسرے شائقین فلم بھی یقینا اسے پسند کریں گے۔
میرے برانڈ کا سینما
میں مرتے دم تک ویسی ہی فلمیں بنانا چاہتا ہوں جیسی اپنے بچپن میں دیکھا کرتا تھا۔ میںآ ٹھ سا ل کاتھا اور سینما جایا کرتا تھا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے سینما اسکرین پر سرخ پردہ اٹھنے کے بعد سینسر بورڈ کا سرٹیفیکٹ اوراس کے بعد فلم شروع ہونے کی ایکسائٹمنٹ ایک ایسا یادگار تجربہ تھا جو اب بھی سوچنے پر سنسنی پیدا کر دیتا ہے۔اس زمانے کی فلمیں آج بھی اچھی لگتیں ہیں۔”سنگھم“ بھی اسی قسم کی فلم ہے جسی اسی کی دھائی میں جتندر کی فلمیں ہوا کرتی تھیں ۔ نقادوں کا خیال ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے لیکن میں اس خیال سے متفق نہیں۔1940ء سے چلی آرہی چیزیں آج بھی کلک کر جاتی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی۔
مقبول ترین
1