|
اسلام آباد _ توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار افراد کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد میں ہفتے کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بچوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے لڑکیوں کی مدد سے یا پھر ملازمت کے بہانے بلوا کر بھاری رقم کا مطالبہ کیا گیا اور مطالبات نہ ماننے پر انہیں توہینِ مذہب کے کیسز میں گرفتار کروا دیا گیا ہے۔
اس نیوز کانفرنس میں مختلف وکلا نے بھی شرکت کی اور متاثرین کے مؤقف کی تائید کی۔ اس موقع پر ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں مبینہ طور پر ہنی ٹریپ کرنے والی لڑکیوں کی تصاویر اور موبائل چیٹ بھی تھی۔
اسلام آباد میں مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ایک شخص کی بہن فرزانہ (فرضی نام) نے بتایا کہ ان کا بھائی گزشتہ دو برس سے جیل میں ہے اور پورا خاندان در بدر ہے۔
فرزانہ کے مطابق ان کے بھائی کو نوکری کا کہہ کر اسلام آباد بلوایا گیا جہاں اسے اغوا کر کے 30 لاکھ روپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور رقم ادا نہ کرنے پر توہینِ مذہب کا مقدمہ چلانے کی دھمکی دی گئی۔
ان کے بقول، بھائی کے پاس پیسے ہوتے تو وہ نوکری کی تلاش میں مارا مارا کیوں پھرتا۔
اسلام آباد میں ہونے والی اس نیوز کانفرنس میں وکلا ایمان مزاری، عثمان وڑائچ اور رانا عبدالحمید نے دعویٰ کیا کہ 'بلاسفیمی گروپ' اب تک 400 افراد کے خلاف مقدمات درج کروا کے انہیں جیلوں میں بھیج چکا ہے جب کہ پانچ افراد کو جیلوں میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'بلاسفیمی بزنس' کی تحقیقات کے لیے عدلیہ اور حکومتی شخصیات کو کئی خطوط لکھے ہیں۔ تاکہ جو لوگ اس کام میں ملوث ہیں انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔
پریس کانفرنس کے دوران اسپیشل برانچ پنجاب اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جن میں ان الزامات کی تصدیق کی گئی تھی۔ تاہم اس بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور جن وکلا پر 'بلاسفیمی بزنس' چلانے کا الزام ہے, وہ ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
اس بارے میں ایف آئی اے کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ بعض افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف آئی اے پر عائد الزامات درست نہیں کیوں کہ ایف آئی اے ایک تفتیشی ادارہ ہے اور اسے کسی بھی شخص پر عائد الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا ہوتا ہے۔
بلاسفیمی بزنس کیا ہے؟
گزشتہ برس فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر اسپیشل برانچ پنجاب کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں وکلا کا ایک گروپ چند افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ گروپ مختلف افراد پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کر کے ان سے مبینہ طور پر رقوم کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کے خلاف مقدمات کا اندراج کروا کر انہیں جیلوں میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ اس کام میں بعض ایف آئی اے کے اہلکار بھی شامل ہیں جو ان وکلا کی معاونت کر رہے ہیں۔
اس بارے میں گزشتہ برس اکتوبر میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ بھی سامنے آئی تھی جس میں ان الزامات کو درست مانا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بلاسفیمی بزنس کی وجہ سے بیشتر افراد گرفتار ہیں جنہیں ہنی ٹریپ کے ذریعے ان کیسز میں ملوث کیا گیا ہے۔
اس بارے میں وکلا کے جس گروپ کا نام لیا جارہا ہے اس میں شامل ایک وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ماضی میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا میں بہت منظم انداز میں توہینِ مذہب کی جا رہی ہے اور ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے وہ قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں آئین میں توہینِ مذہب پر 295سی سمیت مختلف دفعات ہیں اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں بعض دفعات پر سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت 22 افراد کو توہینِ مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ لیکن مختلف عدالتوں میں ان کی اپیلوں کی سماعت جاری ہے اور کسی ایک بھی شخص کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے کہ ان افراد کو عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جائے۔
تحریکِ تحفظ ناموس رسالت نامی تنظیم نے اس بارے میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کو بھی مسترد کیا ہے اور اسے آئین میں حاصل اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا معاملہ بہت حساس سمجھا جاتا ہے اور بیشتر اوقات اس پر بات بھی نہیں کی جاتی۔
فورم