بنگلہ دیش میں احمدیوں کی عبادت گاہ میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ دھماکہ خود کش حملے کا نتیجہ ہوسکتا ہے جو ملک کے شمال مغربی شہر راج شاہی میں واقع احمدیہ جماعت کی ایک عبادت گاہ میں ہوا۔
دھماکہ اس وقت ہوا جب عبادت گاہ میں جمعے کا اجتماع ہورہا تھا۔
ایک پولیس افسر مطیع الرحمان نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے لگ رہا ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والا شخص خود کش حملہ آور ہی تھا۔
بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں کے دوران شدت پسندی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور سیکولر خیالات کے حامل دانشوروں اور لکھاریوں پر حملوں کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
ان میں سے بعض حملوں کی ذمہ داری مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے بھی قبول کی ہے۔
تنظیم نے حالیہ ہفتوں کے دوران ڈھاکہ میں قتل ہونے والے ایک جاپانی شہری کے قتل اور اطالوی امدادی کارکن اور پولیس اہلکار پر قاتلانہ حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
لیکن بنگلہ دیش کی حکومت ملک میں داعش کی موجودگی کے دعووں کو مسترد کرتی ہے اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پیش آنے والے تشدد کے کئی واقعات میں مقامی انتہا پسند ملوث ہیں۔
راج شاہی میں احمدی جماعت کی عبادت گاہ پر حملے سے چند روز قبل ساحلی شہر چٹاگانگ میں نیوی کے ایک مرکز میں واقع مسجد میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
بنگلہ دیش میں اکثریتی مکتبِ فکر اہلِ سنت کی کسی مسجد پر ہونے والا یہ پہلا حملہ تھا جس کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔