عراق بھر میں ہونے والے بم حملوں کے واقعات کے نتیجے میں، کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس سے ایک ہی روز قبل، جمعے نماز کے دوران ایک سنی مسجد پر ہونے والے حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام نے بتایا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور نے بغداد میں ہفتے کو ایک بارود سے بھری گاڑی وزارت داخلہ کی عمارت سے جا ٹکرائی، جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔ وزارت کے انٹیلی جنس صدر دفتر پر ہونے والے اِس حملے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
عراقی حکام نے کہا ہے کہ کرکوک میں تین بم دھماکے ہوئے، جن کے باعث کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ایک اور بم عام طور پر کشیدگی سے دور شہر، اربیل میں پھٹا، جو عراق کے کردستان خطے کا دارلحکومت ہے۔
رائٹرز خبر رساں ادارے نے بھی تکریت میں ہونے والے مہلک بم حملے کی خبریں جاری کی ہیں۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے ایلچی نے ’اَمریلی‘ نام کے شمالی قصبے میں فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے، تاکہ قتلِ عام کے اندیشے سے بچا جاسکے۔
نکولائی ملادونوف نے ہفتے کے روز کہا کہ دولت الاسلامیہ نے اس علاقے کی طرف دو ماہ سے خوراک اور پانی کی رسد کے راستے بند کر رکھے ہیں۔ اُنھوں نے حکومت عراق پر زور دیا کہ محاصرے کی کیفیت کو ختم کرکے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اشیا میسر آئیں یا پھر اُنھیں محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا جائے۔
ایک اور خبر کے مطابق، امریکی فوج نے کہا ہے کہ عراقی افواج کی کارروائی میں مدد فراہم کرنے کے لیے موصل ڈیم کے قریب فضائی حملے کیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ حملے میں دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گاڑی تباہ ہوئی۔
اِس ہلاکت خیز واقع سے کچھ ہی دیر قبل عراق کے پارلیمان کے اسپیکر نے کہا تھا کہ جمعے کے روز سنی مسجد پر ہونے والے حملے کی تفتیش جاری ہے، جس میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے اور جس کے باعث فرقہ واریت پر مبنی تشدد کے واقعات بھڑک اٹھے ہیں۔
سلیم الجبوری نے دارلحکومت میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ چھان بین کرنے والی کمیٹی کو دو روز کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا پتا لگائے، جب کہ اُنھوں نے اِسے’ایک حریفانہ جرم اور قتل عام‘ قرار دیا۔
بغداد کے شمال مشرق میں واقع سنی مسجد پر جمعے کو ہونے والے اِس حملے کا مقصد وفاقی حکومت کی اُن کوششوں کو ٹھیس پہنچانا ہے جس میں وہ عراق کی فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے اور دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
اس حملے میں جمعہ نماز ادا کرنے والے کم از کم 60 نمازی ہلاک ہوئے۔
عینی شاہدین اور سنی اہل کاروں نے اس حملے کا الزام سخت گیر شیعہ ملیشیا پر دیا ہے۔ تاہم، کچھ سرکاری فوجی کمانڈروں نے کہا ہے کہ اُنھیں گمان ہے کہ اس قتلِ عام میں دولت الاسلامیہ کے شدت پسند ملوث ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، میری ہارف نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف سیاسی خیالات کے حامل عراقی رہنماؤں کو چاہیئے کہ پُرتشدد انتہا پسند گروہوں کے خلاف ملک کو متحد کریں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے بھی اِس حملے کی ’سخت ترین الفاظ‘ میں مذمت کی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق، جمعے کے دِن صدر براک اوبام کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کے ہاتھوں امریکی صحافی جیمز فولی کی ہلاکت امریکہ کے خلاف براِہِ راست دہشت گردی کے مترادف ہے۔
یہ بات مسٹر اوباما کے قومی سلامتی کے معاون مشیر، بین رہوڈز نے کہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے، امریکہ دولت الاسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف اضافی کارروائی پر تیار ہے، کیونکہ چھ ماہ قبل کے مقابلے میں اِس وقت یہ گروپ کہیں زیادہ خطرے کا باعث ہے۔ رہوڈز نے کہا کہ مزید فضائی حملوں کے فیصلے کی صورت میں امریکی فوجی کارروائی سرحدوں کے اندر ’محدود‘ نہیں ہوگی۔