بوسنیا نے یورپی یونین کو رکنیت کی باقاعدہ درخواست دیدی ہے لیکن یورپی حکام نے واضح کیا ہے کہ بوسنیا کو رکن بنانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
رکنیت کی درخواست کے کاغذات پیر کو بوسنیا کے صدر ڈراگان چووچ نے برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفتر میں نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ برٹ کوئنڈرز کے حوالے کیے جن کا ملک اس وقت یونین کا صدر ہے۔
بوسنیا ماضی میں کئی بار 28 رکنی یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن اسے ہر بار یورپی حکام کی جانب سے اپنی معیشت، نظامِ انصاف اور حکومت، قانون کی بالادستی اور سیاسی اداروں کو مزید مستحکم بنانے کی ہدایت کی جاتی رہی ہے جو یونین میں شمولیت کی بنیادی شرائط ہیں۔
سابق یوگو سلاویہ کی تقسیم کے وقت 1990ء کے ابتدائی برسوں میں بوسنیا میں ہونے والی لڑائی میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گو کہ بوسنیا جنگ کے اثرات سے نکل آیا ہے لیکن ملک میں موجود نسلی تفریق اور سیاسی نظام کی نسلی بنیادوں پر تشکیل کے باعث یورپی یونین میں داخلے کے لیے درکار اصلاحات کا عمل پڑوسی ملکوں کے برعکس سست رفتاری کا شکار رہا ہے۔
پیر کو درخواست جمع کرانے کے موقع پر ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر چووچ نے کہا کہ ان کا پڑوسی ملک کروشیا پہلے ہی یورپی یونین کا رکن بن چکا ہے جب کہ مونٹی نیگرو اور سربیا رکن بننے کی شرائط پر تیزی سے عمل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بوسنیا ہرزیگووینا بھی یورپ کا حصہ ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے بھی یورپی یونین میں داخلے کا ہدف حاصل کرنا ہوگا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ برٹ کوئنڈرز نے کہا کہ بوسنیا کی درخواست پر اسی وقت غور کیا جائے گا جب اس کی جانب سے اپنے سیاسی اور معاشی نظام میں اصلاحات پر عمل درآمد کی سنجیدہ کوششیں نظر آئیں گی۔
تقریب سے خطاب میں یورپی یونین کے کمشنر برائے توسیع جوہانس ہان نے کہا کہ بوسنیا کی جانب سے رکنیت کی درخواست ایک طویل عمل کا نکتۂ آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک کو یونین کی رکنیت دینا چند مہینوں کی بات نہیں بلکہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔