واشنگٹن —
امریکی ریاست میساچوسٹس کی پولیس کا کہنا ہے کہ بوسٹن میراتھن دوڑ میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ایک مشتبہ شخص ہلاک ہوچکا ہے جب کہ دوسرا ابھی تک مفرور ہے جس کی تلاش کے لیے شہر میں بڑے پیمانے پر کارروائی کی جارہی ہے۔
پولیس کی کاروائی کے باعث بوسٹن شہر اور اس کے گرد و نواح کی کئی آبادیوں میں نظامِ زندگی عملاً مفلوج ہوچکا ہے اور بیشتر شہری اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
ایف بی آئی نے گزشتہ روز دھماکوں میں ملوث دو مشتبہ افراد کی تصاویر اور وڈیو جاری کی تھی جس میں ایک نے سفید جب کہ دوسرے نے کالی ٹوپی پہن رکھی تھی اور دو بیگز اٹھا رکھے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’’سفید ٹوپی‘‘ والا مشتبہ شخص تاحال مفرور ہے اور وہ ’’مسلح اور انتہائی خطرناک‘‘ ہے۔
پولیس نے بوسٹن سے آٹھ کلومیڑ دور واقع نواحی قصبے واٹرٹاؤن اور گرد و نواح کے کئی علاقوں کے رہائشیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں تک ہی محدود رہیں اور پولیس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی ’دستک‘ پر دروازہ نہ کھولیں۔
شہر کے اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں کلاسیں معطل کردی گئی ہیں اور پورے بوسٹن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بھی بند کردیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پیر کو بوسٹن میں میراتھن دوڑ کے موقع پر ہونے والے دو بم دھماکوں میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوگئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مشتبہ شخص ایک چوری کی ہوئی کار میں سوار تھے جب پولیس کو ان کی خبر ملی۔ پولیس کی جانب سے ان کا پیچھا کرنے پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک ملزم شدید زخمی ہوگیا جو بعد ازاں اسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
حکام نے بتایا ہے کہ انہی دونوں مشتبہ ملزمان نے گزشتہ روز 'میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی' کے ایک مقامی سیکیورٹی افسر کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
بوسٹن پولیس کے کمشنر ایڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ پولیس افسران کو یقین ہے کہ مفرور مشتبہ شخص دہشت گردہے جسے حراست میں لینے کے لیے کاروائی کی جارہی ہے۔
امریکی حکام نے بوسٹن حملوں کے مشتبہ دونوں ملزمان کو 19 سالہ زوخار سرنائیو اور 26 سالہ تیمرلن سرنائیو کے ناموں سے شناخت کیا ہے جو سگے بھائی ہیں۔
حکام کے مطابق پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مرنے والا بڑا بھائی تھا۔
بوسٹن دھماکوں کے تفتیشی افسران نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ دونوں ملزمان کا آبائی تعلق روس کے مسلم اکثریتی علاقے چیچنیا سے ہے اور وہ امریکہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔
تفتیشی حکام کے بقول دونوں بھائی میسا چوسٹس کے علاقے کیمبرج کے رہائشی تھے اور ان کی کم از کم ایک بہن بھی امریکہ ہی میں مقیم ہے۔
سرنائیو خاندان سے واقفیت رکھنے والے بوسٹن کے رہائشی ایک نوجوان چیچن نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ملزمان کا خاندان وسطی ایشیا سے آٹھ سے قبل ہجرت کرکے امریکہ آیا تھا۔
پولیس کی کاروائی کے باعث بوسٹن شہر اور اس کے گرد و نواح کی کئی آبادیوں میں نظامِ زندگی عملاً مفلوج ہوچکا ہے اور بیشتر شہری اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
ایف بی آئی نے گزشتہ روز دھماکوں میں ملوث دو مشتبہ افراد کی تصاویر اور وڈیو جاری کی تھی جس میں ایک نے سفید جب کہ دوسرے نے کالی ٹوپی پہن رکھی تھی اور دو بیگز اٹھا رکھے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’’سفید ٹوپی‘‘ والا مشتبہ شخص تاحال مفرور ہے اور وہ ’’مسلح اور انتہائی خطرناک‘‘ ہے۔
پولیس نے بوسٹن سے آٹھ کلومیڑ دور واقع نواحی قصبے واٹرٹاؤن اور گرد و نواح کے کئی علاقوں کے رہائشیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں تک ہی محدود رہیں اور پولیس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی ’دستک‘ پر دروازہ نہ کھولیں۔
شہر کے اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں کلاسیں معطل کردی گئی ہیں اور پورے بوسٹن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بھی بند کردیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پیر کو بوسٹن میں میراتھن دوڑ کے موقع پر ہونے والے دو بم دھماکوں میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوگئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مشتبہ شخص ایک چوری کی ہوئی کار میں سوار تھے جب پولیس کو ان کی خبر ملی۔ پولیس کی جانب سے ان کا پیچھا کرنے پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک ملزم شدید زخمی ہوگیا جو بعد ازاں اسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
حکام نے بتایا ہے کہ انہی دونوں مشتبہ ملزمان نے گزشتہ روز 'میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی' کے ایک مقامی سیکیورٹی افسر کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
بوسٹن پولیس کے کمشنر ایڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ پولیس افسران کو یقین ہے کہ مفرور مشتبہ شخص دہشت گردہے جسے حراست میں لینے کے لیے کاروائی کی جارہی ہے۔
امریکی حکام نے بوسٹن حملوں کے مشتبہ دونوں ملزمان کو 19 سالہ زوخار سرنائیو اور 26 سالہ تیمرلن سرنائیو کے ناموں سے شناخت کیا ہے جو سگے بھائی ہیں۔
حکام کے مطابق پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مرنے والا بڑا بھائی تھا۔
بوسٹن دھماکوں کے تفتیشی افسران نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ دونوں ملزمان کا آبائی تعلق روس کے مسلم اکثریتی علاقے چیچنیا سے ہے اور وہ امریکہ میں قانونی طور پر مقیم تھے۔
تفتیشی حکام کے بقول دونوں بھائی میسا چوسٹس کے علاقے کیمبرج کے رہائشی تھے اور ان کی کم از کم ایک بہن بھی امریکہ ہی میں مقیم ہے۔
سرنائیو خاندان سے واقفیت رکھنے والے بوسٹن کے رہائشی ایک نوجوان چیچن نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ملزمان کا خاندان وسطی ایشیا سے آٹھ سے قبل ہجرت کرکے امریکہ آیا تھا۔