لندن —
کیا مرد اور خواتین میں ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے یا پھر دونوں ہی ایک جیسی صلاحیتوں کے مالک ہیں؟
اس سوال کے جواب میں پیش کی جانے والی ایک نئی تحقیق ممکن ہے بہت سے لوگوں کے خیالات کو نہ بدل سکے برعکس اس حقیقت کے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ مرد اور خواتین کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔
نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کی دو اور دو چار کی طرز پر سوچنے کی حقیقی صلاحیتوں سے قطع نظر معاشرے میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ مرد ریاضی میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ خود خواتین بھی اس تاثر سے متفق نظر آتی ہیں کہ مرد ریاضی میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔
امریکی محقیقین نے اپنی ریسرچ میں معاشرتی اور ثقافتی تعصب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیاں عام طور پر ہائی اسکول کی سطح پر ریاضی میں لڑکوں جتنے ہی نمبر حاصل کرتی ہیں۔
لیکن معاشرے میں یہ سوچ اب بھی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے کہ لڑکیاں بنیادی ریاضی میں اچھی نہیں ہوتیں۔ اور اس منفی سوچ کی وجہ سے لڑکیاں خود بھی یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ وہ ریاضی میں لڑکوں سے کم تر صلاحیتوں کی حامل ہیں۔
محققین نے کہا کہ ممکن ہے کہ تحقیق کا نتیجے سے اس رویہ کی وضاحت ہو سکے جس کی وجہ سے لڑکیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے باہر ہیں۔
ایک طرف تو یہ تاثر دقیانوسی تصورات کی وجہ سے پھلتا پھولتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب لڑکیاں بھی اپنی علم ریاضی کی صلاحیتوں کا اصل سے بہت کم اندازہ لگاتی ہیں اور ان کے مقابلے میں لڑکے خود کو ماہر ریاضی دان سمجھتے ہیں۔
تین امریکی یونیورسٹیوں کی ٹیم کی جانب سے پیش کئے جانے والے مطالعے کی قیادت ماہر نفسیات لوئیجی زینگیلس نے کی۔
اپنی رپورٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ اگرچہ خواتین کی تعداد انڈر گریجویٹس کی سطح پر زیادہ ہے اس کے باوجود ریاضی اور سائنس سے متعلق شعبوں کو منتخب کرنے والے مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین نے دقیانوسی تصورات اور صنفی امتیاز کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مرد اور خواتین کو ایک تجرباتی جاب انٹرویو میں شامل کیا جنھیں ریاضی arithmetic کے ایسے مسائل حل کروایے گئے جن میں دونوں صنف یکساں طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
محقیقین نے شرکا کو امیدوار اور آجر کی حیثیت سے تقسیم کیا اور آجر بننے والے شرکا سے کہا گیا کہ وہ دو مرد اور خواتین شرکا میں سے اپنے لیے کسی ایک ایسے ملازم کا انتخاب کریں جو ریاضی کے مسائل کے ٹاسک میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہو۔ ساتھ ہی مالکان کو منتخب امیدوار کی کارکردگی کے لحاظ سے مناسب رقم کی بھی پیشکش کی گئی۔
محقیقین کے مطابق اگرچہ آجر شرکا شریک امیدواروں کی قابلیت اور دیگر کوائف سے قطعی لاعلم تھے سوائے اس کے کہ وہ انھیں ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے پسند کر سکتے تھے، لیکن مرد اور خواتین مالکان کی جانب سے مرد امیدواروں کو منتخب کرنے کا رجحان دوگنا نظر آیا۔
اسی طرح ممکنہ امیدواروں سے جب کہا گیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے خود کو نمبر دیں تو اس تجربے میں بھی وہی نتیجہ سامنے آیا کہ لڑکوں نے خود کو ریاضی میں زیادہ بہتر خیال کیا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں لڑکیوں نے ریاضی کی صلاحیتوں کے اعتبار سے خود کو کمتر بتایا۔
حتی کہ جب ریاضی کے مسائل کے ٹیسٹ کا اسکور بھی ظاہر کیا گیا تو بھی مکمل طور پر اس صنفی تعصب کے رویے کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
ریسرچ کے سربراہ جناب زینگیلس کے مطابق یہ تعصب اس وقت ضرور کم ہوا جب شرکا کو گزشتہ کارکردگی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئیں۔
'ہارورڈ یونیوسٹی' سے منسلک ماہر نفسیات ماہ زرین بینرجی نے 'جرنل سائنس' کو بتایا کہ لوگوں کا رویہ خواتین کی ریاضی کی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ تحقیق کے دوران نہ صرف خواتین امیدواروں نے اپنی ریاضی کی صلاحیتوں کو کم تصور کیا بلکہ جو خواتیں بطور آجر فرائض انجام دے رہی تھیں انھوں نے بھی دوسری خواتین کی صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں پیش کی جانے والی ایک نئی تحقیق ممکن ہے بہت سے لوگوں کے خیالات کو نہ بدل سکے برعکس اس حقیقت کے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ مرد اور خواتین کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔
نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کی دو اور دو چار کی طرز پر سوچنے کی حقیقی صلاحیتوں سے قطع نظر معاشرے میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ مرد ریاضی میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ خود خواتین بھی اس تاثر سے متفق نظر آتی ہیں کہ مرد ریاضی میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔
امریکی محقیقین نے اپنی ریسرچ میں معاشرتی اور ثقافتی تعصب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیاں عام طور پر ہائی اسکول کی سطح پر ریاضی میں لڑکوں جتنے ہی نمبر حاصل کرتی ہیں۔
لیکن معاشرے میں یہ سوچ اب بھی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے کہ لڑکیاں بنیادی ریاضی میں اچھی نہیں ہوتیں۔ اور اس منفی سوچ کی وجہ سے لڑکیاں خود بھی یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ وہ ریاضی میں لڑکوں سے کم تر صلاحیتوں کی حامل ہیں۔
محققین نے کہا کہ ممکن ہے کہ تحقیق کا نتیجے سے اس رویہ کی وضاحت ہو سکے جس کی وجہ سے لڑکیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے باہر ہیں۔
ایک طرف تو یہ تاثر دقیانوسی تصورات کی وجہ سے پھلتا پھولتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب لڑکیاں بھی اپنی علم ریاضی کی صلاحیتوں کا اصل سے بہت کم اندازہ لگاتی ہیں اور ان کے مقابلے میں لڑکے خود کو ماہر ریاضی دان سمجھتے ہیں۔
تین امریکی یونیورسٹیوں کی ٹیم کی جانب سے پیش کئے جانے والے مطالعے کی قیادت ماہر نفسیات لوئیجی زینگیلس نے کی۔
اپنی رپورٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ اگرچہ خواتین کی تعداد انڈر گریجویٹس کی سطح پر زیادہ ہے اس کے باوجود ریاضی اور سائنس سے متعلق شعبوں کو منتخب کرنے والے مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین نے دقیانوسی تصورات اور صنفی امتیاز کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مرد اور خواتین کو ایک تجرباتی جاب انٹرویو میں شامل کیا جنھیں ریاضی arithmetic کے ایسے مسائل حل کروایے گئے جن میں دونوں صنف یکساں طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
محقیقین نے شرکا کو امیدوار اور آجر کی حیثیت سے تقسیم کیا اور آجر بننے والے شرکا سے کہا گیا کہ وہ دو مرد اور خواتین شرکا میں سے اپنے لیے کسی ایک ایسے ملازم کا انتخاب کریں جو ریاضی کے مسائل کے ٹاسک میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہو۔ ساتھ ہی مالکان کو منتخب امیدوار کی کارکردگی کے لحاظ سے مناسب رقم کی بھی پیشکش کی گئی۔
محقیقین کے مطابق اگرچہ آجر شرکا شریک امیدواروں کی قابلیت اور دیگر کوائف سے قطعی لاعلم تھے سوائے اس کے کہ وہ انھیں ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے پسند کر سکتے تھے، لیکن مرد اور خواتین مالکان کی جانب سے مرد امیدواروں کو منتخب کرنے کا رجحان دوگنا نظر آیا۔
اسی طرح ممکنہ امیدواروں سے جب کہا گیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے خود کو نمبر دیں تو اس تجربے میں بھی وہی نتیجہ سامنے آیا کہ لڑکوں نے خود کو ریاضی میں زیادہ بہتر خیال کیا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں لڑکیوں نے ریاضی کی صلاحیتوں کے اعتبار سے خود کو کمتر بتایا۔
حتی کہ جب ریاضی کے مسائل کے ٹیسٹ کا اسکور بھی ظاہر کیا گیا تو بھی مکمل طور پر اس صنفی تعصب کے رویے کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
ریسرچ کے سربراہ جناب زینگیلس کے مطابق یہ تعصب اس وقت ضرور کم ہوا جب شرکا کو گزشتہ کارکردگی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئیں۔
'ہارورڈ یونیوسٹی' سے منسلک ماہر نفسیات ماہ زرین بینرجی نے 'جرنل سائنس' کو بتایا کہ لوگوں کا رویہ خواتین کی ریاضی کی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ تحقیق کے دوران نہ صرف خواتین امیدواروں نے اپنی ریاضی کی صلاحیتوں کو کم تصور کیا بلکہ جو خواتیں بطور آجر فرائض انجام دے رہی تھیں انھوں نے بھی دوسری خواتین کی صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔