بلوچستان کے ایک ناراض رہنما براہمداغ بگٹی نے تمام سخت گیر بلوچ تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر اپنے اختلافات کو ختم کریں۔
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق براہمداغ نے جنیوا سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اتحاد ہی اس مسئلے کے حل کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے بیان میں مختلف بلوچ دھڑوں کو تجویز دی کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک ماہ کے اندر اندر سوئیٹزرلینڈ میں اکٹھے ہو کر بلوچستان سے متعلق تمام اختلافی معاملات پر مذاکرات کریں۔
وفاقی یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے تو اس حالیہ بیان تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، البتہ بلوچستان میں ایک دہائی سے جاری شورش کے خاتمے کے لیے موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد صوبے میں امن کی کوششوں کا اعادہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پاکستان اور ملک سے باہر مختلف بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں جن میں براہمداغ بگٹی بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور انگریزی روزنامے ’ڈیلی ٹائمز‘ کے مدیر راشد رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بیان کی ایک وجہ یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی سمیت بگٹی قبیلہ کبھی بھی باغی نہیں رہا، مگر انہیں ایسی صورتحال میں دھکیلا گیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی اور بیشتر بگٹی قبیلہ بغاوت کر گیا اور اب وہ بظاہر واپس قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول دوسری وجہ یہ ہے بلوچستان میں کئی شدت پسند گروپ لڑ رہے ہیں جن کا آپس میں اختلاف زیادہ ہے اور اتفاق کم ہے اور شاید اسی کمزوری کے باعث انہیں کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔
’’وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کا معاملہ ہم بغاوت کے ذریعے اور بدست زور نہیں حل کرا سکتے۔ ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے، اتفاق نہیں ہے، ایک بات نہیں ہے۔ اور دوسری طرف پاکستان فوج بہت مضبوط ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہو سکے ہم بات چیت کے ذریعے کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں۔‘‘
راشد رحمان نے کہا کہ اس پر ابھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ یہ کوشش کامیاب ہو گی یا نہیں کیونکہ ابھی یا واضح نہیں کہ مری اور دیگر بلوچ قوم پرست گروہوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ برہمداغ کا یہ کہنا ہی ہمیں بتاتا ہے کہ بلوچ قوم پرست بغاوت کمزور پڑ رہی ہے اور اب وہ کوئی راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
بلوچستان میں امن حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ یہ صوبہ گوادر بندرگاہ کی وجہ سے چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
حکومتی عہدیدار براہمداغ بگٹی کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کا خیر مقدم کر چکے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ہوں گے۔