برازیل کے شمال مغرب میں ریاستِ ’امیزوناس‘ میں واقع قیدخانے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ حکام نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہنگامہ آرائی اتوار کے روز منائو کے مقام پر قائم ’آنسیو جوم پنیشری سینٹر‘ میں شروع ہوئی، جسے پیر کو کنٹرول میں لایا گیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ غل غباڑہ اُس وقت شروع ہوا جب منشیات کے مخالف گروہوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی، جس کے بعد جیل کی دیوار کے اوپر سےکئی سربریدہ لاشیں باہر پھینکی گئیں۔
ریاست کی سلامتی پر مامور سربراہ، سرگیو فونٹیز نے کہا ہے کہ اس تخریب کاری کے دوران متعدد قیدی بھاگ نکلے، جب کہ محافظ گنتی کر رہے ہیں آیا کتنے قیدی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کئی سالوں میں ہونے والی شدید ہنگامہ آرائی تھی۔
انسانی حقوق پر نگاہ رکھنےوالے بین الاقوامی گروپوں نے، جِن میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی شامل ہے، برازیل کے قیدخانوں کے نظام پر نکتہ چینی کی ہے، جہاں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو ٹھونسا جاتا ہے، جس کے باعث گذشتہ کئی سالوں کے دوران اِسی قسم کے مہلک واقعات جنم لیتے رہے ہیں۔
اس سے قبل موصول ہونے والی ایک اطلاع کے مطابق، برازیل میں سال نو کی ایک تقریب کے دوران ایک شخص نے فائرنگ کر کے 11 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔
ریاست سو پاولو کی پولیس کے مطابق جنوب مشرقی شہر کامپیناس میں حملہ آور کی فائرنگ سے مرنے والوں میں اس کی سابقہ اہلیہ اور آٹھ سالہ بیٹا بھی شامل ہیں۔
حملہ آور کی شناخت 46 سالہ سڈنیئی رامس ڈی اراجو کے نام سے ہوئی جو بظاہر اپنی 41 سالہ سابقہ اہلیہ اسامارا فیلیئر سے علیحدگی پر برہم تھا۔
پولیس کے مطابق اس واقعے میں تقریب میں موجود چار افراد محفوظ رہے جب کہ زخمی ہونے والے تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
حملے کے وقت ایک شخص نے باتھ روم میں چھپ کر اپنی جان بچائی اور وہاں سے پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس کے ایک ترجمان نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آور گھر کی باڑ پھلانگ کر آیا اور اپنی سابقہ اہلیہ کو اس سے بیٹا چھین لین پر سخت سست سنائی اور فائرنگ شروع کر دی۔
پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ گولیاں چلنے کی آواز کو وہ سال نو کے موقع پر آتشبازی سمجھے لیکن پھر انھوں نے وہاں لوگوں کو زخمی حالت میں مدد کے لیے پکارتے دیکھا۔
حملہ آور کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ وہ ایک لیبارٹری میں بطور ٹکنیشن کام کرتا تھا جس نے نائن ایم ایم سے فائرنگ کی۔ اس کے قبضے اضافی گولیاں اور چاقو بھی برآمد ہوا۔
برازیل میں جرائم پیشہ عناصر کے حملوں کے علاوہ پولیس کے ساتھ ان کے مقابلے عام بات ہیں لیکن عام لوگوں پر اس طرح کے حملوں کے واقعات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔