برطانیہ بالآخر اکتیس دسمبر کو یورپی یونین سے الگ ہو گیا اور اس طرح اس نے سلطنتِ برطانیہ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا سیاسی و جغرافیائی قدم لیتے ہوئے یورپی یونین کے ساتھ 48 سالہ وابستگی ایسے وقت میں ترک کردی ہے جب بریگزٹ کے بعد اس کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
بریگزٹ یوں تو پچھلے سال 31 جنوری کو ہو گیا تھا جب برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا تھا۔ لیکن سال 2020 کے آخری دن اس کی 'ڈی-فیکٹو ممبر شپ' بھی عبوری عرصے کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
برطانیہ میں پانچ سال سے جاری بریگزٹ بحران یورپ کے معاملات پر غالب رہا۔ اس نے 'اسٹرلنگ مارکیٹ' کو بری طرح نقصان پہنچایا اور مغرب کے معاشی اور سیاسی استحکام میں برطانیہ کے ایک پراعتماد ستون ہونے کی شہرت کو داغ دار کیا۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی بریگزٹ کو خود مختار 'عالمی برطانیہ' کی ایک نئی صبح قرار دیتے ہیں۔ لیکن بریگزٹ نے اس وابستگی کو کمزور کر دیا ہے جو انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور ناردرن آئرلینڈ کو 30 کھرب ڈالر کی ایک مضبوط معیشت میں جوڑ کر رکھے ہوئے ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے نئے سال کے آغاز پر پیغام میں کہا کہ یہ ملک کے لیے اہم لمحہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آزادی اب ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔
بریگزٹ: ایک مشکل فیصلہ
برطانیہ میں 23 جون 2016 کو ہونے والے ریفرنڈم میں ایک کروڑ 74 لاکھ رائے دہندگان نے، جو ملک کے 52 فی صد ووٹر بنتے ہیں، بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ایک کروڑ 61 لاکھ یا 48 فی صد ووٹرز نے یورپی یونین میں رہنے کی حمایت کی تھی۔ بعض افراد نے اس کے بعد اپنا ذہن تبدیل بھی کیا ہے۔
انگلینڈ اور ویلز نے بریگزٹ کے حق میں اور ناردردن آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ نے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اس ریفرنڈم نے ایک منقسم برطانیہ کی تصویر دنیا کے سامنے رکھ دی تھی۔ یہ تقسیم صرف بریگزٹ پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ امیگریشن سے کیپٹلزم تک، ریاست کی پالیسی اور برطانوی ہونے کے مطلب تک، ہر معاملے میں تقسیم واضح ہو گئی تھی۔
برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ اور اب سے دو عشرے قبل برطانوی رہنما اس بارے میں بحث کر رہے تھے کہ آیا یورو کا حصہ بنا جائے یا نہیں۔
لیکن یورو زون کے بحران، یورپی یونین کے مزید ادغام، بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کے خوف اور برطانیہ میں رہنماؤں کی ناراضی نے بریگزٹ کے حامیوں کو ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی۔
وزیراعظم بورس جانسن نے، جنہوں نے 2019 میں اقتدار سنبھالا تھا، کہا ہے کہ ہم اپنے لیے عالمی مستقبل دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کا مستقبل کیا ہوگا؟
ایسے میں جب برطانیہ سنگل مارکیٹ یا کسٹمز یونین سے باہر ہو گیا ہے یہ بات تقریباََ یقینی ہے کہ اس کی سرحدوں پر کچھ مسائل پیدا ہوں گے۔ سرخ فیتہ کلچر کے سبب برطانیہ سے برآمدات اور درآمد کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔
اسی طرح بریگزٹ اور کرونا وائرس انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے 300 سالہ تعلق پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی رہنما نکولا اسٹرجن نے کہا ہے کہ آئندہ مدت کے لیے پارلیمنٹ کے انتخاب کے دوران اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے آزادی کے سوال پر ایک غیر جانب دارانہ ریفرنڈم بھی منعقد کرایا جانا چاہیے۔