برطانوی فوج میں رضاکارانہ طور پر ملازمت چھوڑنے کی درخواستیں توقع سے زائد موصول ہوئی ہیں۔گذشتہ سال اکتوبر میں اسٹریٹجک ڈفنس اینڈ سکیورٹی رویو کے تحت برطانوی فوج میں 7000کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
رواں سال اپریل میں ڈفنس رویو پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کرنے ہوئے برطانوی افواج کے سربراہ نے 500فوجیوں سے رضاکارانہ طور پر نوکری چھوڑنے کی درخواستیں طلب کی تھیں، تاہم برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ فوج کو 900سے زائد ایسے افسران اور جوانوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو کہ ملازمت چھوڑ نا چاہتے ہیں۔ اُن میں سے چھ سینئر برگیڈیئر، 52کرنل اور میجر رینک کے 48افسران بھی شامل ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق ملازمت چھوڑنے کی درخواست دینے والوں میں دو ایسے اعلیٰ فوجی عہدے دار بھی شامل ہیں جِن کے مستقبل میں جنرل کے عہدے تک ترقی پانے کے روشن امکانات ہیں، جب کہ درخواست دینے والوں میں سے تین اعلیٰ فوجی عہدے داروں کو عنقریب برطانوی افواج کی کور کو بٹالین دی رائفلز اور پیراشوٹ رجمنٹ کی قیادت سونپی جانی تھی۔
برطانیہ میں مقیم افغان امور کے تجزیہ کار، جان محمد اچکزئی کے مطابق فوجوں کی جانب سے نوکری چھوڑنے کی توقع سے زائد درخواستوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی فوجی عراق اور افغانستان میں طویل جنگیں لڑنے کے باعث نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ برطانوی فوجی طویل جنگوں اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں کو اپنے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں دشواری درپیش ہوتی ہے اور اب تو اُنھیں برطانوی معیشت میں افراطِ زر کی وجہ سے مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ اِنہیں وجوہات کی وجہ سے فوجی افسران اور جوانوں کی بڑی تعداد اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر فوجیوں کی نوکری چھوڑنے کی شرح اِسی طرح برقرار رہی تو برطانوی فوج کو مستقبل میں قابل اور تجربہ کار افسران کی کمی درپیش ہوسکتی ہے۔
افغانستان میں برطانوی فوج کے سابق کمانڈر کرنل رچرڈ کیمپ نے بھی حال ہی میں ایک نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا تھا کہ مسلح افواج کو آج کل کے دور میں ایک زوال پذیر صنعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کئی تجربہ کار اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل سینئر فوجی افسران برطانوی فوج چھوڑنا چاہتے ہیں۔
برطانوی فوج کی جانب سے 900سے زائد فوجیوں کی نوکری چھوڑنے کی درخواست پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن، اخبار ٹیلی گراف کے مطابق، فوج کے سربراہ پیٹر وِل نے درخواست دینے والے اعلیٰ افسران سے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے غیر رسمی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔