سائنس دانوں نے ایک جدید تحقیق کے ذریعے ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے کہ جس پر علاج کے لیے دی جانے والی اکثر جراثیم کش یا انٹی بائیوٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔
برطانیہ کی کارڈیف یونیورسٹی کے سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے بھارت میں اس بیکٹیریا کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے بھارتی حکام سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے۔
نئی دہلی میں پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں این ڈی ایم ون (NDM-1) نسل کے اس بیکٹیریا کی موجودگی کی نشاندہی پہلی مرتبہ کی گئی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیچش اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب یہ جرثومہ صحت کے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
سائنس دانوں نے نئی تحقیق اُن مریضوں پر کی جو این ڈی ایم ون بیکٹیریا کا شکار ہوئے تھے جب کہ تجزیے کے لیے پانی کے نمونے شہر کے نلکوں اور سڑکوں کے کنارے جمع گندے پانی سے لائے گئے۔
نلکوں سے لیے گئے پانی میں انٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مدافعت کے حامل بیکٹریا کی موجودگی کی شرح چار فیصد رہی جب کہ گندے پانی میں یہ شرح 30 فیصد تک تھی۔
یہ نئی دریافت سائنس دانوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہے کیونکہ اس کے انتہائی مہلک نتائج ہو سکتے ہیں اس لیے اس سے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ہوگا۔
طبی ماہرین ایک طویل عرصے سے ماحول میں اس طرح کے بیکٹیریا کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کرتے آئے ہیں اور جدید تحقیق نے اب اس کی تصدیق کر دی ہے۔
2008ء میں پہلی مرتبہ اس جرثومے کی نشاندہی کی گئی تھی جس کے بعد امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا متعدد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ ان مریضوں میں اکثر حال ہی میں یا تو بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کا دورہ کر کے آئے تھے یا وہاں زیرعلاج رہے۔