رسائی کے لنکس

دوائیں تب ہی استعمال کی جائیں جب اُن کی ضرورت ہو: ماہرین


دوائیں تب ہی استعمال کی جائیں جب اُن کی ضرورت ہو: ماہرین
دوائیں تب ہی استعمال کی جائیں جب اُن کی ضرورت ہو: ماہرین

ڈاکٹروں نے کہا کہ بدقسمتی سے آگہی، علم اور اطلاع کی کمی ہے۔ ساتھ ہی،طب کے حوالے سے رائج ضابطوں اور نظام کی کمزوری بھی موجودہ ہے

صحت کے عالمی دن کے حوالے سے،’قوت مدافعت اور اینٹی بایوٹک ادویات‘ کے استعمال کے موضوع پر ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ گفتگومیں معروف ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مریض اپنے آپ اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال شروع نہ کریں، کیونکہ صرف ایک معالج کو ہی علم ہوتا ہے کہ کس مرض کا صحیح ’ ڈوز‘ اورمناسب مدتِ استعمال کیا ہونی چاہیئے۔ دوسری صورت میں، ادویات کا بے جا استعمال قوتِ مدافعت میں بگاڑ پیدا کرکےمحض صحت کے لیے مضر ثابت ہوگا، ’ اور بدقسمتی سے، ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر یہی کچھ ہو رہا ہے‘۔

’ڈاکٹروں کو فیصلہ کرنے دیں کہ اینٹی بایوٹک ادویات کی کس مریض کو ضرورت ہے : اپنا فیصلہ خود نہ کریں، نہ ہی ڈاکٹر سے اینٹی بایوٹک دوا کا مطالبہ کریں۔‘

اِس سلسلے میں شرکاٴ نے حال ہی میں بھارت سمیت دیگر جنوب ایشیائی ممالک میں ’سُپر بگ‘ نامی جراثیم کا پتا لگنے کے بارےمیں خبروں کا ذکر کیا، جس میں ادویات کے خلاف انتہا ئی درجے کی مدافعت پائی جاتی ہے۔ ’ایسی مدافعت پیدا ہوچکی ہے کہ اکثر طاقتور ترین اینٹی بایوٹک دوا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘

ادویات کے استعما ل کے حوالے سےڈاکٹروں نے کہا کہ بدقسمتی سے آگہی، علم اور اطلاع کی کمی ہے۔ ساتھ ہی،طب کے حوالے سے رائج ضابطوں اور نظام کی کمزوری بھی موجودہ ہے ۔

شرکاٴ ڈاکٹروں نے کہا کہ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بہت سے مرض اور انفیکشن ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ از خود ٹھیک ہوجاتے ہیں، جن کو اینٹی بایوٹک کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ماہر معالج پروفیسر عدیل بٹ کا کہنا تھا کہ جراثیم کُش دواؤں کے مؤثر ہونے میں مسلسل کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سی اینٹی بایوٹک ادویات اب اتنی فائدہ مند نہیں رہیں جتنا کہ ماضی میں ہواکرتی تھیں۔

اینٹی بایوٹک ادویات کے غیر ضروری استعمال کے بارے میں ڈاکٹر عدیل بٹ نے کہا کہ ہمیں ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیئے کہ جراثیم بہت سمارٹ ہوتے ہیں، کہ جب غلط دوائیاں دی جائیں یا نامناسب ڈوز یا مدت تک اینٹی بایوٹک دوائیاں دی جائیں تو وہ اپنے اندر مدافعت پیدا کر لیتی ہیں۔ لیکن، پھر بھی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹر یا مریض خود میڈیکل اسٹور جا کراینٹی بایوٹک دوائیاں لیتے اور استعمال کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ گو کہ غیر ضروری تھا، پھر بھی جب ایک بار اینٹی بایوٹک کا استعمال شروع کیا گیا تو اُس کا کورس پورا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وگرنہ جراثیم کی مدافعت بڑھ جاتی ہے۔

اور تو اور، لوگ پرندوں اور جانوروں تک کو اینٹی بایوٹک دے دیتے ہیں جس کے باعث کئی جراثیم اُن کےذریعے پھیلتے ہیں۔ وہ مدافعت پیدا کر لیتے ہیں اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

تفصیل آڈیو رپورٹ میں سنیئے:

XS
SM
MD
LG